وفاقی وزیر صحت و مرکزی رہنما ایم کیو ایم پاکستان مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ ملک کو چلانے کے لیے نئے صوبے بنانا ناگزیر ہے، یہ خواہش نہیں بلکہ مجبوری بن چکی ہے۔ فیلڈ مارشل سیّد عاصم منیر جب صرف آرمی چیف تھے تو انہوں نے کراچی میں بزنس کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ نظام حکمرانی بہتر بنانے کے لیے ملک میں مزید صوبے بنانے پڑیں گے۔
’وی نیوز ایکسکلوسیو‘ میں چیف ایڈیٹر عمار مسعود کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ بھارت سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں صوبے بن رہے ہیں لیکن ہم اس کے لیے آگے نہیں بڑھ رہے۔ اگر کوئی اپنے صوبے کا نام نہیں بدلنا چاہتا تو جنوبی سندھ، شمالی سندھ، وغیرہ وغیرہ نام رکھ لیے جائیں، لیکن اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں، موجودہ صورت حال میں معیشت آگے نہیں بڑھ سکتی۔
’آئین قرآن پر لکھی ہوئی آیت کا نام نہیں، پہلے بھی ترامیم ہو چکی ہیں‘
مصطفیٰ کمال نے کہاکہ آئین قرآن پر لکھی ہوئی آیت کا نام نہیں، آئین میں اس سے قبل بھی ترامیم ہو چکی ہیں۔ دو ہی آپشن ہیں یا ہم مر جائیں۔ یا زندہ رہنے کے لیے نئے صوبے بنانے سمیت گورننس کا نظام ٹھیک کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ جب تک آپ گلی کوچوں تک اختیارات لے کر نہیں جائیں گے، یہ ملک نہیں چل سکتا۔ مجھے کسی سیاسی جماعت سے تو اس کی امید نہیں لیکن اگر ملک کو چلانے والے طاقتور اداروں کو اس کا ادراک ہے تو یہ کرنا ہوگا۔
’گورننس ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ریاست سے بددل ہو جاتے ہیں‘
وزیر صحت نے کہاکہ جب حکومت گورننس کا نظام ٹھیک نہیں کرتی تو لوگ ریاست سے بد دل ہو جاتے ہیں۔ پھر ایسی صورت میں حکومتیں فوج کو بلا لیتی ہیں کہ یہ دہشتگرد بن گئے ہیں آپ ان سے لڑو۔
’آپ پچھلے 40 سالوں سے فوج کو اپنے ہی لوگوں سے لڑائے جا رہے ہیں۔ پہلے آپ لوگوں کو اس نہج پر لے آئیں کہ وہ ہتھیار اٹھا لیں، پھر آپ فوج کو ان سے لڑنے کا کہیں اور اسی فوج کو برا بھلا بھی کہیں، یہ درست نہیں۔‘
انہوں نے کہاکہ فوج کو اگر اپنے لوگوں سے لڑائی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنی ہے تو ان کو اختیارات اور وسائل دینے پڑیں گے، اور اس کا طریقہ نئے صوبوں کے علاوہ کوئی اور نہیں۔
وزیر صحت نے کہاکہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے بزنس کمیونٹی سے خطاب میں نئے صوبوں کی جو بات کی تھی وہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں۔ میں اور میری پارٹی اس تائید کرتے ہیں، کیوں کہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔
مصطفیٰ کمال نے کہاکہ دنیا بھر میں کہیں بھی اس نظام کے تحت ترقی ہو ہی نہیں سکتی۔ ہماری تو یہ خواہش کب کی تھی، لیکن اب خواہش نہیں ملک کو چلانے کے لیے یہ مجبوری ہوگئی ہے۔ ’آپ کچھ بھی کرلیں نئے صوبے بنائے بغیر ملکی معیشت درست میں نہیں جا سکتی۔‘
’27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے کچھ معلوم ہو اتنی میری اوقات نہیں‘
ممکنہ 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’آپ کیا سمجھتے ہیں ہماری اتنی اوقات ہے کہ اس حوالے سے مجھے سب کچھ معلوم ہوگا، میں بس صرف صحت کے محکمے کی صحت دیکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ ممکنہ 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے میں نے بھی میڈیا رپورٹس ہی دیکھی ہیں، اس کے علاوہ ہمیں کچھ نہیں بتایا گیا، نہ ہی کوئی مشاورت ہوئی ہے۔‘
’وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے کوئی نافرمانی نظر نہیں آ رہی‘
مصطفیٰ کمال نے کہاکہ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت چل رہی ہے، اور مجھے اس میں کوئی مسئلہ نظر نہیں آرہا وہ آئینی مدت پوری نہ کرسکیں۔ فی الحال کوئی نافرمانی نظر نہیں آرہی۔
ملک میں صدارتی نظام لانے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ میرے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں ہیں۔ میری بس خواہش ہے کہ نئے صوبے بنیں اور ملک آگے بڑھے۔
وفاقی وزیر صحت نے کہاکہ ماضی میں جب ہم زرعی ٹیکس لگانے کی بات کرتے تھے تو لوگ ایسا ردعمل دیتے تھے کہ جیسے ہم نے کوئی گالی دے دی ہے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا ملک مالی مشکلات کا شکار ہوگیا، اور ڈیفالٹ کی باتیں ہونے لگیں۔
انہوں نے کہاکہ جب ہمیں ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام میں جانا پڑا تو عالمی مالیاتی ادارے نے سب سے پہلی شرط زراعت پر ٹیکس لگانے کی رکھی۔ اور ستم ظریفی دیکھیے اس کا اعلان صدر مملکت آصف علی زرداری نے خود کیا۔
’مارشل لاز کے دور میں لوکل گورنمنٹ کے نظام کو پروان چڑھایا گیا‘
انہوں نے کہاکہ مارشل لاز کے دور میں لوکل گورنمنٹ کے نظام کو پروان چڑھایا گیا۔ میں جب میئر تھا تو کراچی دنیا کے سات بڑے ترقی کرنے والے شہروں میں شامل تھا۔ اب بھی اگر کراچی کو ٹھیک کر دیا جائے تو یہ شہر آپ کو 8 سے 12 ہزار ارب روپے دے سکتا ہے، کراچی نہیں چلے گا تو پورا ملک نہیں چل سکتا۔
کراچی کا نظام ٹھیک کیوں نہیں ہورہا؟
مصطفیٰ کمال نے کہاکہ میں نے کراچی کے مسائل حل کرکے دکھائے، میں نے حرام نہیں کمایا اور ڈیلیور کرکے دکھایا۔ ’کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، کراچی آج اگر اچھے لوگوں کے پاس آ جائے تو ٹھیک ہو جائےگا۔‘
’18ویں آئینی ترمیم کے بعد تمام اختیارات وزیراعلیٰ کے پاس ہیں‘
انہوں ںے کہاکہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد تمام اختیارات وزیراعلیٰ کے پاس ہیں۔ ہم اپنے تعلقات کی بنیاد پر لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور کم از کم اپنے لوگوں کو نظر تو آتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کا چوتھا دور ہے، ان کو ترقیاتی فنڈز کی مد میں ہزاروں ارب روپے ملے، کراچی میں مرتضیٰ وہاب پہلے 2 برس ایڈمنسٹریٹر رہے، پھر میئر بن گئے۔ آج کراچی کے مسائل کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔
’الطاف بھائی واپس نہیں آ رہے‘
گورنر سندھ کامران ٹیسوری کے ایک مبہم بیان سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں مصطفیٰ کمال نے کہاکہ ایسی کوئی بات نہیں کہ الطاف بھائی واپس آ رہے ہیں۔ جب بھائی یہاں پر تھے تو کراچی میں 20 لاشیں روزانہ گرتی تھیں، اللہ کا شکر ہے کہ یہ عذاب ہمارے ذریعے ٹلا۔ اُس دور میں چڑیا کا بچہ بھی مر جائے تو ایف آئی آر ایم کیو ایم کے کارکن کے خلاف کٹتی تھی۔
انہوں نے کہاکہ الطاف بھائی لندن میں بیٹھ کر نریندر مودی کو آواز لگا رہے ہیں، اور ہم یہاں اگر ان کی حمایت کریں تو پھر بالکل ریاست کو ہم سے پوچھنا چاہیے۔
مصطفیٰ کمال نے مزید کہاکہ الطاف بھائی بہت سے لوگوں کو سوٹ کرتے تھے، ان کی دو نمبریاں صرف اکیلے کی نہیں تھیں۔ بہت سے لوگ ان کے نام پر مزے کررہے تھے۔ الطاف بھائی ایک آدمی کا نہیں بلکہ اس سسٹم کا نام تھا۔ میری ان سے آخری ملاقات جولائی 2013 میں ہوئی۔
انہوں نے کہاکہ ایم کیو ایم کے اثاثے اگر ہمیں مل گئے تو شہدا کے خاندانوں کے لیے فنڈ بنا دیں گے، یہ رقم ہم خود استعمال نہیں کریں گے۔
کون سے اقدامات فوری کرنے سے ملک آگے بڑھے گا؟
کون سے اہم اقدامات ہیں جو فوری کرنے سے ملک میں بہتری شروع ہو سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ فیصلہ سازوں کو چاہیے کہ خود کو اچھا کہلوانے کی خواہش دل سے نکال دیں۔ اس کے علاوہ نئے صوبے بنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہاکہ لوکل گورنمنٹ کا مکمل اور بہترین نظام بنانا ہوگا جس کے لیے آئین کے آرٹیکل میں ترمیم کی ضرورت ہے، جو ایم کیو ایم نے تجویز کر رکھی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہمارے گھر کی خاتون ڈرائنگ روم سے کچرا جمع کرکے تھیلی گھر کی کھڑکی سے باہر پھینک دیتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ چاردیواری سے باہر کی جگہ کو اپنی نہیں سمجھتی۔
انہوں نے کہاکہ جب آپ ایک گلی کو بنانے کے لیے وہاں کے رہنے والوں کو ساتھ شامل کریں گے تو پھر وہ اسے اپنی جگہ سمجھیں گے، اور یہ سب فیصلہ سازوں کے کرنے کے کام ہیں۔
’محکمہ صحت کو بہتر کرنے کے لیے کام کررہے ہیں‘
انہوں نے کہاکہ وزارت صحت ابھی سنبھلی نہیں، تاہم اس کے لیے ہم کوشش کررہے ہیں۔ پہلے ڈیڑھ پونے دو سال تک اس کا کوئی وزیر ہی نہیں تھا، وزیراعظم کے پاس اس کا پورٹ فولیو تھا۔
مصطفیٰ کمال نے کہاکہ میں نے آکر سب کو کہاکہ کام کرو لیکن مجھے اندر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ’شروع میں لوگوں نے بہت مزاحمت کی، ان کا خیال تھا کہ اسے تنگ کریں گے تو کہے گا کہ بھائی مجھے وزیر رہنے دو آپ جو مرضی کرو لیکن ہم نے تو یہ کام سیکھا نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہاکہ وزارت صحت میرے لیے گلاب کا بستر نہیں، تاہم اب ہماری ٹیم ایسی بن گئی ہے کہ چیزیں چلنا شروع ہو گئی ہیں، ہم بہت جلد پائلٹ پراجیکٹ شروع کرنے جارہے ہیں۔ جس سے بہتری نظر آئےگی۔
انہوں نے کہاکہ ہیلتھ کیئر انسان کو مریض بننے سے بچانے کا نام ہے لیکن ہم تو اسپتالوں میں مریضوں کا انتظار کررہے ہیں۔ ہر سال 11 ہزار ماؤں کی ڈیلیوری کے دوران موت واقع ہورہی ہے۔
’پینے کا صاف پانی مہیا کرنے سے اسپتالوں سے 68 فیصد بوجھ کم ہو جائےگا‘
انہوں نے کہاکہ ڈاکٹروں کے مطابق 68 فیصد امراض گندا پانی پینے سے پھیل رہے ہیں، اگر ہم لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کردیں تو اسپتالوں سے یہ 68 فیصد بوجھ کم ہو جائے۔
مصطفیٰ کمال نے کہاکہ گلگت سے لے کر کراچی تک ہمارے پاس کوئی ایسا نظام ہی نہیں کہ پینے کے پانی کو محفوظ بنایا جا سکے، کہیں نہ کہیں پینے کے پانی میں سیوریج کا گندا پانی شامل ہورہا ہے۔
وزیر صحت نے کہاکہ چھوٹے چھوٹے بچے کینسر کی بیماری میں مبتلا ہے، ہمارے ہاں ہیلتھ کیئر کا کوئی نظام نہیں، ہم بس مریض بنا رہے ہیں۔ اس صورت حال میں تو ہر گلی کے کونے پر بھی اسپتال بن جائے تو پورے مریضوں کا علاج ممکن نہیں ہو سکتا۔
’صحت کے مسائل حل کرنے کے لیے جلد پائلٹ پراجیکٹ شروع کرنے جارہے ہیں‘
انہوں نے کہاکہ پمز اسپتال اگر اس وقت روزانہ 400 لوگوں کے چیک اپ کے لیے بنا تھا تو آج ساڑھے 9 ہزار لوگ او پی ڈی میں چیک اپ کے لیے آرہے ہیں۔ ایک ڈاکٹر کو 35 لوگ دیکھنے تھے اور اب وہ 270 مریضوں کو دیکھ رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ پورا آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور آدھا خیبرپختونخوا بھی علاج کے لیے ادھر کا ہی رخ کررہا ہے۔ لوکل سطح پر صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مرکزی اسپتالوں کا رخ کررہے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے منصوبہ بنایا ہے جس پر جلد عملدرآمد ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ جن لوگوں کی وجہ سے سارے مسائل ہیں انہی کو اگر کہیں کہ آپ سسٹم کو ٹھیک کر لو تو یہ ممکن نہیں۔ یہاں کہا جاتا ہے فلاں کا چور ہٹا کر میرا چور لگا دو۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ سرکاری ڈاکٹروں کو پرائیویٹ پریکٹس وہیں پر کرنے کی سہولت ہونی چاہیے، تاکہ اس کا فائدہ اس اسپتال کو بھی پہنچے۔
’آبادی بڑھنے کی شرح کو کنٹرول کرنا ہوگا‘
مصطفیٰ کمال نے کہاکہ ہمارے ہاں آبادی بڑھنے کا تناسب 3.6 ہے، جو پورے ریجن میں سب سے زیادہ ہے۔ اگلے 5 برس میں ہم انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑ کر سب سے زیادہ آبادی والے چھٹے ملک کی فہرست میں آ جائیں گے۔
انہوں نے کہاکہ ہمارا ڈھائی کروڑ بچہ اسکولوں سے باہر ہے، ہمیں ہر حال میں آبادی بڑھنے کی شرح کو کم کرنا ہوگا، ورنہ ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔