پاکستان ٹیلی ویژن کوئٹہ سینٹر میں شام کے اوقات میں 5,5 منٹ کے بلیٹن تین زبانوں میں پونے 5 بجے ہوا کرتے تھے۔ جس میں بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسرز اور ادیب دانشور یہ کام سرانجام دیا کرتے تھے۔
پی ٹی وی کوئٹہ سینٹر نہ صرف اپنی عمارت کی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہے، بلکہ اپنے ڈراموں آرٹسٹ اور فنکاروں کی وجہ سے بخوبی جانا پہنچانا جاتا ہے، جس کا آغاز 1974 میں کیا گیا تھا۔
سینئر نیوز ایڈیٹر پی ٹی وی انگلش عبدالسلام جوگیزئی بتاتے ہیں کہ جب ہم نے کام شروع کیا تھا اس وقت بہت سینئر لوگ ہوا کرتے تھے، جن سے کئی بار سوچنے کے بعد سنبھل کر الفاظ کا انتخاب کرتے ہوئے کوئی بات پوچھی اور لکھی جاتی تھی، مجھے یاد ایک لفظ پر لوگوں کو چارج شیٹ بھی کیا جاتا تھا۔
اس قدر پی ٹی وی کی پالیسی سخت ہوا کرتی تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اب نہ نیوز میں پروڈیوسر ہے، نہ ایڈیٹر اور نہ ہی سپر وائزر جو ایک وقت میں 4 افراد ایک ڈیسک پر کام کیا کرتے تھے، اب ایک فرد پر آکر رک گیا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے وہ ہی شخص اس بلیٹن کو تیار کرکے نیوز کاسٹر کے طور پر بھی کام کرتا ہے، ایسے میں انسان کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی؟ آپ اس کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
سینئر صحافی اور صحافیوں کی نمائندہ جماعت پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابقہ صدر شہزاد ذوالفقار کہتے ہیں کہ جب الیکٹرونک میڈیا کا انقلاب برپا ہوا تو کوئٹہ میں کم لوگ تھے جو کیمرہ کے سامنے آکر بات کریں۔
کوئٹہ چھوٹا شہر ہونے کی وجہ سے یہاں شروع سے اسٹاف کم دیا جاتا رہا ہے۔ جیو نیوز کا آغاز کیا گیا تب بھی 3 سے 4 افراد رپورٹنگ پر اور ایک شخص اسائنمنٹ پر ہوا کرتا تھا، جو ڈیسک پر بیٹھا رہتا تھا اور سارے ٹکرز اور نیوز فائل کرتا رہتا تھا، بعد میں اے آر وائے نیوز آیا، پھر آہستہ آہستہ باقی چینل آتے گئے اور کام چلتا گیا۔
دنیا نیوز جب شروع ہوا تو 2008 میں تو جو نان لینیر ایڈیٹر تھے انہی سے اسائنمنٹ اور کاپی کا کام لیا جاتا رہا اور بعد میں جو بیورو 10 کے قریب افراد پر مشتمل تھا اسے 4 سے 5 افراد تک محدود کیا گیا ہے۔
اب تو آئے روز کوئٹہ میں کوئی نہ کوئی بیورو مکمل طور پر بند ہونے کی اطلاع آتی ہے۔ کے ٹی این نیوز کا بیورو ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا، جہاں ایک شخص بھی بہت اچھا کام کر رہا تھا۔
حال ہی میں بول نیوز کے بیورو کو مکمل طورپر بند کردیا گیا۔ ڈان نیوز کا بیورو بند کر دیا گیا اور اس طرح سے کافی بیورو میں سیلری کٹ لگایا جاتا رہا اور صحافی بے روزگار ہوتے چلے گئے۔
آج سے 5 سال پہلے جو الیکٹرونک میڈیا کا بیورو 10 سے بارہ افراد پر مشتمل ہوا کرتا تھا وہ سکڑ کر 3 سے 4 افراد پر جا کے ٹہرا ہے، بلکہ اس میں ذیادہ تر چینلز کے بیورو آفیسز بند کر دیے گئے۔
پہلے اسائنمنٹ ایڈیٹر اور رپورٹرز کی پوسٹیں ہوا کرتی تھیں، اب تو رپورٹر ہی اسائنمنٹ ایڈیٹر ہے اور این ایل ای کا کام کرتا دیکھائی دیتا ہے، بعض بیورو کو تو صرف ایک رپورٹر اور ایک کیمرہ مین پر روک دیا گیا۔
ون مین آرمی کا تصور ایک انسان کا ذہنی سکون حرام کر دیتا ہے۔ ایک انسان اپنی صلاحیت کے مطابق ہی کام کر سکتا ہے، لیکن اس کے اوپر بے وجہ کام کا برڈن ڈالنا بار بار اس کی سرزنش کرنا اور بہت تیزی سے کام کرے کی تلقین کرنا اسے کئی امراض میں مبتلا کرکے رکھ دیتے ہیں۔
اس میں صحافی نفسیاتی امراض کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ کام بھی اچھے انداز میں نہیں کرپاتا اور ذہنی کوفت میں مبتلا ہوکر رہ جاتا ہے۔
ابرار احمد دنیا نیوز سے وابستہ ہیں، کہتے ہیں کہ ’میرا ہمیشہ سے خواب تھا کہ میں سچ کو سامنے لانے میں اپنا کردار ادا کروں۔ میں نے صحافت کا انتخاب اس لیے کیا کہ مجھے لگا کہ یہ شعبہ سماجی تبدیلی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
کچھ حد تک، لیکن حقیقی دنیا کے چیلنجز توقعات سے زیادہ سخت ہیں۔ میں نے سوچا تھا کہ صحافی کو مکمل آزادی ہوتی ہے، مگر عملی طور پر کئی مشکلات اور ادارتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میرا سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ مجھے حقیقت کو پیش کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ، تنخواہ اور نوکری کا استحکام بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے بھی خدشات موجود ہیں، کیونکہ کچھ مواقع پر شدید دباؤ یا خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔
میں یہی کہوں گا کہ صحافت ایک جذبے اور عزم کا نام ہے۔ اگر آپ سچائی کی تلاش میں ہیں اور اپنے کام میں ایمانداری برتنے کو تیار ہیں، تو یہ شعبہ آپ کے لیے بہترین ہے۔ لیکن آپ کو ذہنی دباؤ کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘
سینئر صحافی اور کوئٹہ پریس کلب کے جنرل سیکرٹری ایوب ترین کہتے ہیں کہ ’میرا سفر کافی چیلنجنگ رہا ہے۔ جب میں نے صحافت میں قدم رکھا، تو تحقیق اور حقائق کی تصدیق پر زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ اب نیوز روم میں رفتار اور فوری خبر رسانی کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔
پہلے نیوز روم میں تحقیق اور صحافتی آزادی کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی، لیکن اب اکثر ادارتی مداخلت اور سنسر شپ کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، سوشل میڈیا کے باعث خبریں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں، جس سے صحافیوں پر دباؤ بڑھ گیا ہے کہ وہ فوراً رپورٹنگ کریں، چاہے حقائق مکمل طور پر تصدیق شدہ نہ ہوں۔
صحافت کا معیار متاثر ہو رہا ہے کیونکہ تحقیق اور وقت کی کمی کے باعث بعض اوقات غیر تصدیق شدہ خبریں بھی نشر ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، بعض ادارے ریٹنگز اور اشتہاری آمدنی کی خاطر سنسنی خیز خبریں زیادہ نشر کرتے ہیں، جس سے صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
میرا مشورہ ہوگا کہ وہ تحقیق اور حقائق کی تصدیق کو اولین ترجیح دیں۔ صحافت کے اصولوں پر کاربند رہیں، چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔ اور سب سے اہم بات، اپنے ذہنی دباؤ کا خیال رکھیں، کیونکہ یہ شعبہ نہایت چیلنجنگ ہے۔‘
ذہنی صحت اور صحافی — ماہرین کی نظر میں
ماہر نفسیات ڈاکٹر عائشہ بیدار کے مطابق، صحافیوں میں سب سے عام ذہنی مسائل اینزائٹی، ڈپریشن، برن آؤٹ، اعتماد میں کمی اور غصہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’صحافی، ڈاکٹر اور پولیس جیسے پیشے وہ ہیں جن میں دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے، لیکن ان پر توجہ کم دی جاتی ہے۔‘
سینٹر آف ایکسیلینس فار جرنلزم (CEJ) کی تحقیق کے مطابق:
- 45%صحافی بے چینی کا شکار تھے
- 22% کو ذہنی دباؤ
- 14% کو اعتماد میں کمی
- 13% کو شدید اسٹریس
- 6% کو غصہ
- 22% دیگر مسائل سے دوچار تھے
نیوز رومز کا ماحول اور ذہنی اثرات
ماہر نفسیات ڈاکٹر خالد مفتی کے مطابق، نیوز رومز میں وقت کی قلت، فوری خبر رسانی، اور ادارتی دباؤ صحافیوں کو شدید ذہنی تناؤ میں مبتلا کر دیتا ہے۔ پشاور اور کوئٹہ کے 60 فیصد سے زائد صحافی نیند، خوراک، اور یادداشت جیسے مسائل کا شکار ہیں۔
ماہرین کی تجاویز — ذہنی سکون کے لیے اقدامات
ماہرین کے مطابق صحافیوں کے لیے درج ذیل اقدامات مددگار ثابت ہو سکتے ہیں:
- ون آن ون کونسلنگ سیشنز کی فراہمی
- سائیکولوجیکل سیفٹی پر مبنی نیوز رومز
- ورکشاپس اور تربیتی پروگرامز کا انعقاد
- مراقبہ، یوگا، اور جسمانی سرگرمیاں
- سپورٹ گروپس اور فیملی تھراپی4
ذہنی دباؤ کا اثر گھر والوں پر
CEJ کراچی نے 2018 میں صحافیوں کے لیے مفت تھیراپی سیشنز کا آغاز کیا، جس سے 100 سے زائد صحافی مستفید ہو چکے ہیں۔
قراقرم یونیورسٹی دیامر کیمپس میں صحافیوں کے لیے ذہنی صحت اور خودکشی سے متعلق ذمہ دارانہ رپورٹنگ پر سیمنار منعقد ہوا۔
صحافیوں کی بہبود کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا ادارے ذہنی صحت کے مشاورتی پروگرامز متعارف کروائیں، جہاں ماہرین نفسیات صحافیوں کی ذہنی پریشانیوں کو سن سکیں اور انہیں دباؤ سے نمٹنے کے مؤثر طریقے سکھا سکیں۔
نیوز رومز میں آرام دہ ماحول کی فراہمی، باقاعدہ ورکشاپس، اور ذہنی سکون کے لیے مختص مقامات بھی اہم ہیں، تاکہ صحافیوں کو روزمرہ کے دباؤ سے نکلنے کا موقع ملے۔
اس کے ساتھ ساتھ، حکومت اور متعلقہ اداروں کو ایسے قوانین نافذ کرنے چاہئیں جو صحافیوں کو غیر ضروری سنسر شپ، دباؤ، اور ہراسانی سے محفوظ رکھیں، تاکہ وہ آزادانہ طور پر اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکیں۔
اس کے علاوہ، کام کی منصفانہ تقسیم اور مالی استحکام بھی صحافیوں کی ذہنی صحت کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ صحافیوں کے لیے مناسب وقفے، تنخواہوں میں بہتری، اور ٹیم ورک کے اصولوں پر عمل درآمد کے ذریعے کام کے بوجھ کو متوازن رکھا جا سکتا ہے، تاکہ ہر فرد اپنی ذمہ داریوں کو زیادہ مؤثر طریقے سے نبھا سکے۔
اس طرح کی اصلاحات نہ صرف صحافیوں کی بہبود کو یقینی بنائیں گی بلکہ صحافتی معیار کو بھی بلند کریں گی، اور ایک آزاد، متوازن اور صحت مند میڈیا انڈسٹری کو فروغ دینے میں مدد کریں گی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔