پاکستان میں حالیہ سیلاب، ہماری غلطیاں اور مستقبل کے تقاضے

ہفتہ 30 اگست 2025
author image

انعم ملک

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

رواں سال مون سون کے دوران پاکستان ایک مرتبہ پھر شدید ماحولیاتی آفات کی لپیٹ میں آیا۔ محکمہ موسمیات اور عالمی رپورٹس کے مطابق پنجاب، خیبرپختونخوا اور شمالی علاقوں میں غیر معمولی بارشوں اور دریاؤں کے کنارے ٹوٹنے سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔

صرف پنجاب میں 10 لاکھ سے زائد شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، جب کہ مجموعی طور پر ملک بھر میں سینکڑوں اموات اور اربوں روپے کا مالی نقصان رپورٹ ہوا۔

مشرقی پنجاب کے اضلاع میں صورت حال خاص طور پر سنگین رہی جہاں راوی، ستلج اور چناب کے کنارے ٹوٹنے اور بھارت کی جانب سے ڈیموں سے پانی چھوڑنے کے بعد تقریباً 12 لاکھ افراد براہِ راست متاثر ہوئے اور ہزاروں دیہات زیرِ آب آ گئے۔

خیبرپختونخوا کے اضلاع سوات، بونیر اور شانگلہ میں فلیش فلڈز نے درجنوں بستیاں اجاڑ دیں، مکانات، سکول اور مویشی تباہ ہوئے۔ لاہور سمیت بڑے شہروں میں مختصر مگر تیز بارشوں نے نکاسیِ آب کے ناقص نظام کی وجہ سے اربن فلڈنگ کو جنم دیا۔

تازہ ترین تحقیقی تجزیوں  (World Weather Attribution، اگست 2025) نے یہ واضح کیا ہے کہ اس سال پاکستان میں ہونے والی بارشوں کی شدت انسانی پیدا کردہ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث کم از کم 15 فیصد زیادہ رہی۔

یہ سوال اہم ہے کہ آخر ہم بار بار انہی آزمائشوں سے کیوں گزر رہے ہیں؟

اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری اپنی کوتاہیاں ہیں۔ دریاؤں کے کنارے آبادیاں بسانے اور فلڈپلین پر قبضہ کرنے سے پانی کے قدرتی راستے سکڑ گئے۔ شہری مراکز میں نالوں پر تعمیرات اور کچرے کے ڈھیروں نے نکاسی کے نظام کو ناکارہ بنا دیا۔

بالائی وادیوں میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی نے پانی کے بہاؤ کی شدت بڑھا دی، جب کہ گلیشیائی علاقوں میں نگرانی کے فقدان نے گلوف کے خطرات میں اضافہ کیا۔ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے نئے ڈیمز یا ریزروائرز وقت پر تعمیر نہ ہو سکے اور 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد بھی فلڈ مینجمنٹ اور ریزیلینس پراجیکٹس عملی شکل اختیار نہ کر سکے۔

اس سیلاب نے یہ حقیقت پھر یاد دلا دی ہے کہ جانی نقصان کا ازالہ ممکن نہیں، البتہ مالی نقصان کے ازالے کے لیے حکومت کو ٹھوس حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔

متاثرہ علاقوں میں عارضی ریلیف کیمپس، خوراک اور طبی امداد کی فراہمی جاری ہے، مگر مکانات، فصلوں اور مال مویشیوں کا مکمل ازالہ صرف وقتی امداد سے ممکن نہیں۔

اس کے لیے طویل المدتی منصوبے اور شفاف فنڈنگ میکانزم درکار ہیں۔ اگر حکومت پیشگی اقدامات جیسے فلڈپلین زوننگ، چھوٹے اور درمیانے ذخائر کی تعمیر، شہری نکاسیِ آب کے جدید منصوبے اور جنگلات کے تحفظ پر بروقت سرمایہ کاری کرتی تو شاید نقصان اتنا زیادہ نہ ہوتا۔

مستقبل میں ان آفات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم فوری طور پر فلڈپلین مینجمنٹ ایکٹ نافذ کریں، دریا کے قدرتی راستوں کو بحال کریں اور شہروں کو ’اسپونج سٹی‘ ماڈل پر ڈھالیں۔

اس تصور کے تحت شہروں کو اس طرح ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ وہ بارش کے پانی کو اسپونج کی طرح جذب کریں اور بتدریج اسے زمین میں اتاریں یا دوبارہ استعمال کریں، بجائے اس کے کہ پانی فوراً بہہ کر شہری آبادیوں میں سیلابی کیفیت پیدا کرے۔

اگر لاہور کو اسپونج سٹی بنایا جائے تو نالہ لئی اور نالہ راوی کے اطراف سبز بیلٹ اور ریٹینشن بیسنز قائم کر کے بارش کا پانی روکا جا سکتا ہے۔

گلبرگ اور ڈیفنس جیسی جگہوں پر پرمی ایبل سڑکیں تعمیر ہوں، اور عمارتوں کو لازمی قرار دیا جائے کہ وہ بارش کا پانی ذخیرہ کریں۔ جلانی پارک اور گلشنِ اقبال پارک جیسے مقامات میں مصنوعی جھیلیں بنائی جا سکتی ہیں جو زیرِ زمین پانی کو ریچارج کریں۔

اسی طرح کراچی میں محمودآباد اور گجر نالہ جیسے بڑے نالوں کو دوبارہ بحال کر کے ان کے اطراف گرین کوریڈور بنائے جائیں۔ سفاری پارک اور ہل پارک میں بارش کا پانی جمع کرنے والی جھیلیں بنیں۔

ڈیفنس اور کلفٹن کی سڑکوں کو پرمی ایبل بنایا جائے، جب کہ ساحلی علاقوں میں مینگرووز کی بحالی شہر کو نہ صرف بارش بلکہ سمندری طوفانوں سے بھی محفوظ کر سکتی ہے۔

اسپونج سٹی ماڈل کے نفاذ سے شہری سیلاب میں 30 سے 40 فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے، زیرِ زمین پانی بہتر ہو گا، اور ہیٹ ویوز کے دوران درجہ حرارت بھی دو سے تین ڈگری تک کم کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ ماڈل شہروں کو خوبصورت، سبز اور ماحول دوست بناتا ہے۔

 بالائی علاقوں میں شجرکاری، چھوٹے ڈیموں اور گلیشیائی وادیوں میں ارلی وارننگ سسٹمز ناگزیر ہیں۔ قومی سطح پر سیلابی رسک مینجمنٹ کا ماسٹر پلان اور بین الاقوامی کلائمیٹ فنانس تک رسائی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

بصورت دیگر، 2022 اور 2025 جیسے سانحات آنے والے برسوں میں مزید شدت کے ساتھ ہمارے دروازے پر دستک دیتے رہیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp