امریکا نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو اگلے ماہ نیویارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے سفر کی اجازت نہ دینے کا اعلان کیا ہے جہاں کئی امریکی اتحادی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کرنے والے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ عباس سمیت تقریباً 80 فلسطینی رہنماؤں کے ویزے منسوخ یا مسترد کیے جائیں گے۔ ان میں فلسطینی اتھارٹی اور فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے نمائندے بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیل کا غزہ آپریشن ’خونریز‘ ہو سکتا ہے، اقوام متحدہ کا انتباہ
محمود عباس کے دفتر نے اس فیصلے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام اقوام متحدہ اور امریکا کے درمیان ہونے والے 1947 کے ‘ہیڈکوارٹرز معاہدے’ کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت امریکا کو اقوام متحدہ میں آنے والے غیر ملکی سفارتکاروں کو ویزا دینے کا پابند کیا گیا ہے۔ تاہم واشنگٹن کا مؤقف ہے کہ وہ سلامتی، انتہا پسندی یا خارجہ پالیسی کے خدشات کی بنیاد پر ویزا دینے سے انکار کر سکتا ہے۔
فلسطینی صدر کے ترجمان نبیل ابو ردینہ نے مطالبہ کیا کہ امریکا اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام بین الاقوامی قانون کے منافی ہے اور کسی بھی وفد کو اقوام متحدہ تک رسائی سے نہیں روکا جا سکتا۔
یورپی ممالک نے بھی امریکا کے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔ فرانس کے وزیر خارجہ نے کہا کہ جنرل اسمبلی میں کسی وفد کی شرکت پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ آئرلینڈ کے وزیر خارجہ نے زور دیا کہ یورپی یونین کو اس فیصلے پر سخت ترین الفاظ میں احتجاج کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ سے مقامی آبادی کا بڑے پیمانے پر انخلا ممکن نہیں، ریڈ کراس کے سربراہ کا انتباہ
اسپین کے وزیراعظم پیدرو سانچیز نے بھی محمود عباس سے بات کرتے ہوئے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور کہا کہ فلسطین کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی آواز اقوام متحدہ سمیت ہر عالمی فورم پر بلند کرے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے مؤقف میں کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اور پی ایل او نے انتہا پسندی سے لاتعلقی اختیار نہیں کی اور وہ فلسطینی ریاست کو یکطرفہ طور پر تسلیم کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فلسطینی حکام نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کی ثالثی میں دہائیوں سے جاری مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے اور اسرائیلی قبضہ ختم کرنے اور آزاد فلسطینی ریاست قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔