جدید دور میں ’ڈیجیٹل ڈیمینشیا‘ تیزی سے ایک سنجیدہ مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ ڈیجیٹل ڈیمینشیا دراصل دماغی کمزوری اور یادداشت کی خرابی کی ایک ایسی حالت کو کہا جاتا ہے جو ضرورت سے زیادہ موبائل فون، ٹیبلٹ اور کمپیوٹر کے استعمال کے باعث پیدا ہوتی ہے۔
ڈیجیٹل ڈیمینشیا کیا ہے؟
جرمن نیورو سائنسدان ڈاکٹر مینفرڈ اسپٹزر نے 2012 میں پہلی بار اس اصطلاح کو متعارف کروایا۔ ان کے مطابق زیادہ وقت گیجٹس پر گزارنے والے بچے اور نوجوان وہی علامات دکھانے لگتے ہیں جو عام طور پر بڑی عمر کے افراد میں ڈیمینشیا کے دوران سامنے آتی ہیں، جیسے بھولنے کی بیماری، فیصلہ سازی میں مشکل اور ذہنی کارکردگی کی کمی۔
یہ بھی پڑھیں: موبائل کی لت یا ڈیجیٹل نشہ، ماہرین نے جان چھڑانے کا طریقہ بتا دیا
وجوہات
ماہرین کے مطابق بچوں میں ڈیجیٹل ڈیمینشیا کی سب سے بڑی وجہ حد سے زیادہ اسکرین ٹائم ہے۔ بچے دن کے کئی گھنٹے موبائل فون اور ویڈیو گیمز پر گزار دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے دماغ کے وہ حصے متاثر ہوتے ہیں جو یادداشت اور توجہ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ نیند کی کمی اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتی ہے، جبکہ جسمانی سرگرمیوں اور سوشل سرگرمیوں سے دوری بھی بچوں کو ذہنی طور پر غیر فعال بنا دیتی ہے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر سحرش افتخار نے کہاکہ جب بچے اپنا زیادہ وقت ورچوئل دنیا میں گزارتے ہیں تو وہ حقیقی زندگی کی سرگرمیوں سے دور ہو جاتے ہیں۔ یہی رویہ ان کی دماغی نشوونما کو سست کر دیتا ہے اور چھوٹی عمر میں ہی یادداشت کی کمزوری پیدا کر دیتا ہے۔
’ڈیجیٹل ڈیمینشیا کے شکار بچے پڑھائی میں توجہ نہیں دے پاتے‘
ڈاکٹر سحرش افتخار کے مطابق ڈیجیٹل ڈیمینشیا کے شکار بچے پڑھائی میں توجہ نہیں دے پاتے اور اکثر معمولی باتیں بھی بھول جاتے ہیں۔ زیادہ اسکرین ٹائم کے باعث ان کی نیند متاثر ہوتی ہے جس سے چڑچڑاپن، تھکن اور بے سکونی بڑھ جاتی ہے۔ طویل عرصے تک یہی عادات دماغی کارکردگی کو سست کر دیتی ہیں اور بچے فیصلہ سازی یا مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔
بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ والدین اگر بروقت اقدامات کریں تو بچوں کو اس مسئلے سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے بچوں کے لیے اسکرین ٹائم محدود کرنا ضروری ہے تاکہ وہ گیجٹس پر گھنٹوں نہ گزاریں۔ دوسری جانب کھیلوں اور جسمانی سرگرمیوں کی عادت ڈالنے سے ان کی توانائی مثبت انداز میں استعمال ہوتی ہے۔
’فیملی کے ساتھ وقت گزارنا اور کتاب بینی یا تخلیقی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی بھی بچوں کو ڈیجیٹل دنیا کے منفی اثرات سے بچاتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکنالوجی بذاتِ خود نقصان دہ نہیں ہے۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ بچے اسے کس مقصد اور کس حد تک استعمال کرتے ہیں۔ والدین اگر اعتدال پیدا کر لیں تو یہی ٹیکنالوجی سیکھنے اور تخلیق میں مددگار بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طلبا کے لیے اسکول میں موبائل فون کتنا کارآمد ہے؟
ماہرین متفق ہیں کہ اگرچہ ’ڈیجیٹل ڈیمینشیا‘ کوئی باضابطہ طبی بیماری نہیں ہے لیکن اس کی علامات حقیقی ہیں۔ والدین کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ بچوں کی سرگرمیوں میں توازن پیدا کریں تاکہ نئی نسل یادداشت اور ذہنی کمزوری کے مسائل سے محفوظ رہ سکے۔