وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ملک میں بڑے ڈیم صرف آمروں کے دور میں بنائے گئے کیونکہ ان کے پاس طاقت ہوتی ہے اور وہ اس طاقت کے ذریعے قومی اتفاق رائے پیدا کرا لیتے ہیں، لیکن سیاست دان اختلافات اور سیاسی دکانداری کی وجہ سے قومی معاملات پر یکجہتی قائم نہیں کر پاتے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اب وقت آگیا ہے کہ قومی اتفاق رائے سے نئے ڈیمز تعمیر کیے جائیں تاکہ مستقبل میں تباہ کن سیلابی صورتحال سے نمٹا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: خواجہ آصف سیالکوٹ میں سڑک کی ناقص تعمیر پر بول پڑے، شدید تحفظات کا اظہار
انہوں نے کہاکہ اگر کہیں کوئی نہر یا ڈیم بنانے کی بات کی جائے تو سڑکیں نہیں بند کرنی چاہییں، ہمیں فوری طور پر چھوٹے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے، کیوں کہ 10 سے 15 سال انتظار کرتے رہے تو سب کچھ ڈوب جائےگا۔
خواجہ آصف نے کہاکہ ملک کو اس وقت تاریخ کے بڑے سیلابی بحران کا سامنا ہے، لیکن یہ صرف قدرتی آفت نہیں بلکہ ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ بھی ہے۔ لوگوں نے نالوں اور دریاؤں کے راستوں پر قبضے کر کے گھر اور آبادیاں بنا لیں، جیسا کہ سیالکوٹ میں دریا کے بیچوں بیچ آبادیاں قائم کی گئیں۔ انہوں نے کہاکہ سیالکوٹ میں بھی لوگوں نے قبضے کرکے پلاٹ فروخت کر دیے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم عالمی برادری سے امداد مانگتے ہیں مگر پہلے اپنے اعمال درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت خود احتسابی کا ہے تاکہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ سکیں۔
’سیاسی مفادات ایک طرف رکھتے ہوئے بلدیاتی اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا‘
خواجہ آصف نے کہاکہ بدقسمتی سے ملک میں بلدیاتی اداروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں نہ صرف بلدیاتی انتخابات کی کوئی واضح تاریخ موجود ہے بلکہ اکثر اوقات بلدیاتی قوانین تک کا علم بھی نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے یہ نظام کمزور رہتا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے بلدیاتی اداروں کو مضبوط کیا جانا چاہیے تاکہ عوامی مسائل مقامی سطح پر حل ہو سکیں۔
انہوں نے کہاکہ صوبوں میں اختیارات صرف صوبائی دارالحکومتوں تک محدود ہیں، جس سے نچلی سطح پر عوام کو ان کا حق نہیں ملتا۔
یہ بھی پڑھیں: دریاؤں کے راستے پر تجاوزات تباہی کی وجہ، سول انتظامیہ کا کام پاک فوج کررہی ہے، خواجہ آصف
وزیر دفاع نے حالیہ سیلابی صورتحال پر مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسے محض قدرتی آفت قرار دینا درست نہیں، دراصل یہ ہماری اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا نتیجہ ہے۔