دنیا میں جہاں کہیں دو انسان موجود ہیں وہاں اختلاف رائے لازم ہے۔ یہی اختلاف اگر تہذیب کے دائرے میں رہے تو صحت مند مکالمے کی بنیاد بنتا ہے، جس سے معاشرہ نمو پاتا ہے۔ اور اگر اسی اظہار کے طریقے میں ضد ، ہٹ دھرمی اور انا در آئے تو خونی جنگوں کی شکل بھی اختیار کر لیتا ہے۔ در اصل اختلاف رائے کے اظہار کا طریقہ ہی تہذیب کی بنیاد ہے۔
ترقی یافتہ دور میں اگرچہ آزادئ اظہار رائے کو بنیادی انسانی حق تسلیم کیا جاتا ہے، وہیں بعض اوقات یہ دقیق نکتہ نظر انداز ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ آزادی، ذمہ داری کا تقاضہ بھی کرتی ہے، جس کے بغیر آزادی محض انارکی کا دوسرا نام ہے۔
جیسے جیسے دنیا نے ترقی کی ہے، وہیں اختلاف کے اظہار کے طریقے، رحجانات اور معیار بھی بدل گئے ہیں۔
سوشل میڈیا نے دنیا کو تیزی سے بدل دیا ہے۔ اس کے آنے سے جہاں ہر کسی کو اپنی بات کے اظہار کا موقع ملا، وہیں لڑائیوں کے انداز میں بھی جدت پیدا ہوئی۔
لیفٹ اور رائٹ ونگ، دونوں طرف کی اپنی اپنی انجمن ستائش باہمی تشکیل پائی۔ باقاعدہ واٹس ایپ گروپ بناۓ گئے، جہاں کے “مرشد” اپنے تمام مریدین کو احکام جاری کرتے ہیں کہ، اب کیسے اور کس کو رگیدنا ہے۔
گلی محلے سطح کی لڑائیاں، اب میٹاورس ورلڈ میں داخل ہو چکی ہیں۔ پہلے لڑائیوں میں لوگ لڑائی ہونے پہ دوست یاروں کو پہنچنے کا کہتے تھے، اب وٹس ایپ میسج کیا جاتا ہے۔ سٹیٹس لگانے کا ” ترلہ” کیا جاتا ہے اور پوسٹ پہ کمنٹس کے تڑکے بھی خوب لگتے ہیں اور متحارب گروپوں کی جانب سے بلاک، ان فالو جیسے ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال دکھائی دیتا ہے ۔
ڈیجیٹل لڑائی کے جہاں بہت سے فوائد ہیں، وہیں بہت سے نقصان بھی ہیں۔ گلی میں ہوتی لڑائی سے جہاں اہل محلہ محظوظ ہو لیتے تھے، وہیں ” تیلی” لگانے والے مخالف کے لیے بڑھکتے شعلے کو ہوا دینے کا چسکا پورا کر لیتے اور فریقین کی دھینگا مشتی کا مزا لیتے ۔
ڈیجیٹل لڑائیوں میں گو ” تیلی” لگانے جیسا اہم کام اب بھی جاری ہے، کسی نے کسی کے بارے میں پوسٹ کی تو اس کے “شریک” اپنا تمام ساڑ وہیں نیچے کمنٹس سیکشن میں نکالنا شروع کر دیتے ہیں کیوں کہ موضوع گفت گو، خود تو صاحب پوسٹ کے ہاں بلاک ہوتا ہے ۔
اور چند لوگ تو ایسے بھی ہیں جو کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی سے بلا وجہ ہی سینگ پھنسائی رکھتے ہیں، ان کو لگتا ہے حقیقت بس ان پہ عیاں ہوئی ہے، وہ امام وقت ہیں اور اب پوری دنیا کو راہ راست پہ لانا ان کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ جو ان کی بات سے اختلاف کرے وہ ازلی “جاہل” ہے۔
ان حضرات کی “دشمن داری” کا دائرہ کار کافی وسیع ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پہ ہر وقت دنیا کے مصائب بیان کرنا اور لوگوں کو ملامت کرنا ان کے فرائض منصبی میں شامل ہوتا ہے۔ اکثر و پیشتر ایسی مصائب و الم سے بھرپور پوسٹس کرتے پائے جاتے ہیں کہ کبھی تو یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ، ان کے شناختی کارڈ پہ شناختی علامت کے خانے میں ” زندہ لاش” لکھا ہو گا۔
بعض تو ایسے ہیں جو اپنی طرف سے خود کو نروان پا جانے والوں میں سمجھتے ہیں، انھیں ہمیشہ ملکی مصائب و مسائل گنواتے ہی پایا گیا ہے ان کی وال پہ آپ کو بس ملامت ہی ملے گی ۔۔۔
سب سے دل چسپ لڑائی سوشل میڈیا پہ باجیوں کی ہوتی ہے، کیوں کہ ان کی لڑائی کو ان سے بڑھ کر اپنی ہار جیت سمجھنے والے بہت سے ” بھائی صاحبان ” ہمہ وقت چاک و چوبند رہتے ہیں۔
کسی نے ان کی ” باجی جان ” کو کچھ کہہ دیا تو باجی کے تمام بھائی بریگیڈ لفظی گولا بارود کے ساتھ صف بندی کر کے گولے داغنا شروع کر دیتے ہیں، تاوقتیکہ اگلی پارٹی پسپائی اختیار نہ کر لے۔
سوشل میڈیا پہ ہر شخص ہی کچھ نہ کچھ کہتا ملے گا اور کچھ تو اتنا بولتے ہیں کہ، ایسا لگتا ہے ان کے مونھ کو “دست” لگے ہیں اور اگر غلطی سے کبھی آپ کی ان سے دو بہ دو ملاقات ہو جائے تو وہ میت کی مانند خاموش ملیں گے۔۔۔
حقیقی دنیا کی لڑائیوں میں چند جسمانی زخم لگتے تھے، جو بھر جاتے تھے اور صلح صفائی ہو جاتی تھی۔ ڈیجیٹل لڑائیوں میں نفسیاتی اور جذباتی گھاؤ لگتے ہیں، جن کو بھرنے میں بھی عرصہ لگتا ہے۔
گو زمانے کی ترقی کا پہیہ، اب واپس نہیں گھوم سکتا، لیکن اس گم شدہ تہذیب کی تلاش جاری رہے گی، جہاں اختلاف رائے قطع تعلقی کے بجائے صحت مند مکالمے کی بنیاد ہوا کرتا تھا۔