ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ بلوچستان حمزہ شفقات نے کہا ہے کہ کوئٹہ میں سریاب روڈ پر جلسہ گاہ کے باہر دھماکے میں 8 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ جلسے کے انعقاد کی اجازت نہیں دی جارہی تھی، تاہم منتظمین کی جانب سے شدید دباؤ تھا۔
پولیس حکام کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے، تاہم خودکش حملہ آور کی شناخت تاحال نہیں ہوسکی۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ میں بی این پی کے جلسے کے بعد دھماکا، اختر مینگل بال بال بچے
ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے کہا کہ جلسے کے لیے سیکیورٹی فراہم کی گئی تھی، اگر دھماکا جلسہ گاہ کے اندر ہوتا تو جانی نقصان کہیں زیادہ ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ واقعہ جلسے کے اختتام کے تقریباً 45 منٹ بعد پیش آیا، جبکہ منتظمین کو 3 مرتبہ جلسہ ختم کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے جاری سیکیورٹی تھریٹ کو سنجیدگی سے لینا چاہیے تھا۔ اگر منتظمین اس پر عمل کرتے تو اس افسوسناک واقعے سے بچا جاسکتا تھا۔ واقعے میں 15 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں ایک پولیس اہلکار بھی شامل ہے۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے بتایا کہ حملہ آور کی عمر 30 سال سے کم تھی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے شہدا کے لواحقین کے لیے 15 لاکھ روپے اور زخمیوں کے لیے 5 لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ہے۔
مزید پڑھیں: کوئٹہ دھماکا: جاں بحق افراد کی تعداد 13 ہوگئی، وزیراعلیٰ کا ضرورت پڑنے پر ایئر سروس مہیا کرنے کا اعلان
انہوں نے مزید کہا کہ بی این پی کے جلسے پر 120 پولیس اہلکار تعینات تھے۔ جلسہ سہ پہر 3 بجے شروع ہونا تھا، تاہم دھماکہ رات 9 بجے جلسہ گاہ سے تقریباً 500 میٹر دور ہوا، سیکیورٹی خدشات سے متعلق سیاسی جماعت کو پہلے ہی آگاہ کردیا گیا تھا۔
حمزہ شفقات نے اعلان کیا کہ آئندہ مغرب کے بعد جلسے اور جلوسوں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جلسے کی اجازت حکومت نے دی تھی اور ہم اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں، جتنی ممکنہ سیکیورٹی فراہم کی جاسکتی تھی وہ کی گئی۔













