ارسل اپنے والدین کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا اور بہن بھائیوں میں سب سے لاڈلا۔ ایسا بچہ بے جا لاڈ پیار میں ضدی بھی ہوجاتا ہے۔ ارسل کا شمار بھی ایسے ہی لاڈلے اور ضدی بچوں میں ہوتا تھا۔ لیکن اس میں ایک خصوصیت تھی کہ وہ کلاس کا ذہین ترین بچہ تھا۔ اس لیے ضدی اور شرارتی ہونے کے باوجود سب اسے پیار کرتے تھے، جس سے اس کی لاپرواہی اور بدتمیزی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ والدین سے ضِد کرکے اس نے موٹر سائیکل لی اور تیز رفتاری کے باعث ٹانگ بھی تڑوا بیٹھا۔ چھ ماہ بستر پر پڑا رہا پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا۔ لیکن چونکہ وہ ’ضدی لاڈلا‘ بچہ تھا اس لیے اس کو کبھی کچھ نہ کہا گیا۔ سب اس پر رشک کرتے تھے کہ لاڈلا ہو تو ایسا ہو۔
ایسا ہی ایک لاڈلا ہماری سیاست میں عمران خان کی صورت میں موجود ہے۔ جو سپورٹ ان کو اداروں کی طرف سے ملی کسی کو نہیں ملی، ہاں پیار محبت میں وقتی کمی ضرور آئی تھی لیکن ایک در بند ہو تو دوسرا در کھل ہی جاتا ہے۔ ایسا ہی عمران خان کے ساتھ ہوا۔ مقتدرہ سے سپورٹ بند ہوئی تو عدلیہ سے سہارا مل گیا۔ آخر کو وہ لاڈلے جو ٹھہرے۔
پہلے آصف زرداری تھے جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان دیا اور پھر ان کو علاج کی غرض سے بیرون ملک جانا پڑا۔ 18ماہ کی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد واپس آئے لیکن معافی نہ مل سکی۔ کیونکہ وہ لاڈلے نہیں ہیں۔
دوسرا نمبر الطاف حسین کا آیا۔ 22اگست 2016ء کے بعد ان کی سیاست میں جگہ نہیں رہی۔ ایم کیو ایم پاکستان نے ان سے علیحدگی کا اعلان کر دیا اور نئی ایم کیو ایم کو اپنے ہی قائد کی نہ صرف مذمت کرنا پڑی بلکہ انہیں اپنی ہی پارٹی سے الگ کردیا۔ تب سے اب تک الطاف حسین سیاسی منظر نامے سے غائب ہیں ۔ کیونکہ وہ لاڈے نہیں ہیں۔
اس کے بعدمقتدرہ کی آنکھوں کا تارا رہنے والے نواز شریف جنہوں نے ”اوور مائی ڈیڈ باڈی“ کہنے کی جسارت کی اور کرسی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ پھردرمیانی راستہ نکالنے کی لاکھ کوشش کی گئی، لیکن معافی تو درکنار ان کو نا اہلی کا تمغہ سینے پر سجانا پڑا جس سے ابھی تک جان نہیں چھڑائی جاسکی۔ کیونکہ وہ مزید لاڈلے نہیں رہے۔ اور ان کے جگہ ’نئے لاڈلے‘ نے لے لی ہے۔
جن گناہوں کے پیشِ نظرپہلے پیپلز پارٹی کو احتساب کی چھلنی سے گزارا گیا، اور پھر ن لیگ کو۔ اس سے خان صاحب بچ گئے، کیونکہ وہ لانے والوں کی آنکھوں کا تارا تھے اور شاید تا حال ہیں۔ اس لیے ان کو صرف اقتدار سے بے دخل کیا گیا۔ احتساب سے ابھی وہ کوسوں دور ہیں۔ وہ ان مقدمات میں بھی بحفاظت دریا پار اترنے میں کامیاب رہتے ہیں جس میں سب کو یقین ہوتا ہے کہ وہ جیل کی ہوا کھائیں گے۔ نیب نے تگ و دو کے بعد ان کو گرفتار کیا تو اگلے ہی دن ان کی آزادی کا پروانہ بھی جاری کر دیا گیا۔ کیونکہ عمران خان تو لاڈلا ہے۔
تمام جماعتوں نے ان کے خلاف محاذ کھولا اور احتجاج بھی ریکارڈ کرایا کہ ملک کو اس حال تک پہنچانے والاعمران خان آخر کب تک لاڈلا رہے گا؟ لیکن دوسری طرف سے چکموں کے سوا کوئی جواب نہیں آیا۔
سیاستدان بھی جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی ہی لاڈلے کا مقام عطا کرسکتی ہے، جو دائرے سے باہر نکلے گا وہ دیوار کے ساتھ لگے گا۔ انہی مفادات نے سب کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر رکھا ہے۔ تمام جماعتیں ’اگلی ٹرم‘ کے لیے مفادات کا تحفظ چاہتی ہیں اور اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ اس وقت کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ فتح کا حصول اپنے اصولوں سے پیچھے ہٹنے اور ’لاڈلا‘ بننے پر مجبور کر رہا ہے۔ دیکھتے ہیں ’لاڈلا‘ بننے کی ریس کون جیتے گا یا یہ میڈل عمران خان ہی سینے سے سجائے رکھیں گے۔
کیونکہ عمران خان بھی اس ضدی لاڈلےبچے کی طرح ہیں جو غلطیوں کے باوجود بھی لاڈلے ہیں اور سب اس پر رشک کرتے ہیں کہ ”لاڈلا ہو تو ایسا“۔