پلاننگ ایسےکی جاتی ہے

جمعہ 5 ستمبر 2025
author image

عامر خاکوانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اگر کوئی مجھے کہے کہ پاکستانی سیاستدانوں، خاص کر حکمرانوں کو ایک کتاب پڑھنے کا مشورہ دیا جائے تو وہ کیا ہونی چاہیے؟ کوئی یہ پوچھے کہ وزیراعظم شہباز شریف کو اور من ہی من میں وزیراعظم بننے کا خواب دیکھنے والے بلاول بھٹو کو صرف ایک کتا ب ریکمنڈ کرنا پڑی تو وہ کون سی ہو؟

اڈیالہ جیل میں اسیر عمران خان کا کوئی خیر خواہ مجھ سے صلاح مانگے کہ خان صاحب آج کل جیل میں کتابیں پڑھ رہے ہیں تو انہیں اپنی طرف سے ایک کتاب بھجوانا چاہتے ہیں، وہ کیا ہو؟

ان تینوں سوالات کا میرے پاس ایک ہی جواب ہے، باب وڈورڈ کی کتاب ’ایجنڈا‘۔ اس کا جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں، مگر پہلی ہم تینتیس سال پہلے واشنگٹن ڈی سی کے ایک گھر پر تصور میں نظر ڈالتے ہیں:

مزید پڑھیں: وائس آف امریکا کی متنازع رپورٹ کا کوئی نوٹس لے گا؟

واشنگٹن میں اتوار کا دن خاصا پرسکون اور کام کے بوجھ سے آزاد ہوتا ہے۔ واشنگٹن کے مضافات میں واقع اس گھر میں مگر نقشہ بالکل مختلف تھا۔ صبح ہی سے خاصی گہما گہمی تھی۔ ایک بڑے کمرے میں چھ سات افراد اپنے سامنے پڑے کاغذات کے پلندوں میں غرق تھے۔ اچانک یونانی خدوخال رکھنے والے ایک طویل قامت نوجوان نے سر اٹھایا۔

اس نے کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر دوڑائی، پھر تھکن دور کرنے کے لیے انگڑائی لی۔ اسے خیال آیا کہ توانائی بحال کرنے کے لیے گرم سیاہ کافی کا ایک کپ بنایا جائے۔

ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار بل کلنٹن کے اس ایڈوائزر جارج سٹیفن پولس کو قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ کلنٹن کی ٹیم میں شامل ہونے کے بعد انہیں اس قدر کٹھن چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں: 2024 میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں کون سی تھیں؟

یہ سب لوگ کلنٹن کی اقتصادی ٹیم کے ارکان تھے اور صدارتی مہم کے لیے ڈیموکریٹ امیدوار کے اقتصادی پلان کی تیاری میں مشغول تھے۔ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور گہرے رنگ کے خوبصورت سوٹ میں ملبوس بل کلنٹن اندر داخل ہوا۔

کلنٹن کے آتے ہی گویا کمرے میں زندگی کی لہر سی دوڑ گئی۔ چند ہی منٹوں کے بعد میٹنگ شروع ہوگئی۔

صدارتی امیدوار بل کلنٹن کے مشیروں کی اس ٹیم میں روب شیپریو، باب رائخ، جارج سٹیفن پولس، جیمز کاروائل اور پال بے گالا شامل تھے۔ یہ تمام لوگ ممتاز پروفیشنل ہونے کے ساتھ ساتھ مزاجاً ڈیموکریٹ تھے۔

مزید پڑھیں: کب جان سے جائیں گی یہ جذباتی وابستگیاں

سٹیفن پولس کا شمار الٹرا لبرل ڈیموکریٹ میں ہوتا تھا۔ ملکی معیشت اور گورننس کے حوالے سے ان سب کا اپنا اپنا نقطہ نظر تھا، مگران میں ایک بات مشترک تھی کہ وہ تمام دلی طور پر ری پبلکن صدور ریگن اور جارج بش (سینئر) کے بارہ سالہ دور حکومت میں پیدا ہونے والی خرابیوں کا خاتمہ چاہتے تھے۔

کلنٹن نے ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار بننے کا اعلان کرنے سے پہلے ہی اپنی ٹیم بنانے پر توجہ دی۔ اس نے خاصی محنت کرکے مختلف شعبوں کے ایسے ماہرین اکٹھے کیے جو اس کے اپنے ویژن سے متفق ہوں۔ سلیکشن سے پہلے ان تمام افراد کے بارے میں اچھی طرح چھان بین کی گئی۔

کوئی بھی صدارتی امیدوار اس کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا کہ گرما گرم انتخابی مہم کے دوران اس کے کسی ساتھی کا کوئی سکینڈل سامنے آئے۔ یوں نومبر 1992 میں ہونیوالے امریکی صدارتی انتخاب سے سال پہلے کلنٹن کی ٹیم مکمل ہوچکی تھی۔

مزید پڑھیں: استحکام پارٹی نے ملک بھرسے کتنی نشستوں پر مسلم لیگ ن سے سیٹ ایڈجسمنٹ مانگی؟

یہ سب تفصیل باب وڈورڈ نے اپنی کتاب میں لکھی ہے۔ باب وڈورڈ امریکا کے ممتاز صحافی اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ باب وڈورڈ ان دو صحافیوں میں شامل تھے، جنہوں نے ستر کی دہائی میں واٹرگیٹ سکینڈل شائع کرکے امریکی سیاست میں ایک بھونچال کھڑا کردیا۔

باب وڈورڈ کا شمار ان صحافیوں میں رہا ہے جو وائٹ ہاؤس کے اندرونی حلقے تک رسائی رکھتے ہیں۔ اس نے مختلف امریکی صدور کے ادوار پر کتابیں لکھی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے وائٹ ہاؤس کے ریکارڈ تک رسائی دی جاتی رہی، قریباً ہر صدر کے سٹاف سے انٹرویوز کرنے کا موقع بھی ملا۔

باب وڈورڈ کی ہر کتاب اس قابل ہے کہ اس پر گفتگو کی جائے، مگر آج کلنٹن کے وائٹ ہاؤس دنوں پر لکھی کتاب دی ایجنڈا ’ The Agenda‘ زیر بحث آئے گی۔

باب وڈورڈ کی کتاب ’ایجنڈا‘ پر کالم لکھنے کا مقصد پاکستانی سیاستدانوں، حکمران جماعتوں، حکمرانوں کو یہ بتانا ہے کہ اس طرح پلاننگ کی جاتی ہے اور ایسی پلاننگ ہی مثبت اور بھرپور نتائج لاتی ہے۔

مزید پڑھیں: استحکام پاکستان پارٹی کے عہدیداران کا باضابطہ اعلان، عبدالعلیم خان صدر مقرر

اس حوالے سے ایک دو بار پہلے بھی بات کی، کچھ لکھا بھی، مگر بدقسمتی سے یہ ایسا موضوع ہے کہ ہمیں بار بار اس پر لکھنا اور بات کرنا پڑتی ہے۔
تجربہ کار امریکی صحافی نے اس کتاب کو ایک تحقیقاتی پراجیکٹ کے طور پر لیا اور ان تمام لوگوں سے کئی کئی سیشن کیے جو صدارتی الیکشن سے خاصا پہلے ہی کلنٹن کی ٹیم میں شامل ہو گئے تھے۔

دی ایجنڈا ایک دلچسپ ناول کی طرح لکھی گئی ہے۔ دراصل کلنٹن نے ریگن اور جارج بش کی بے لگام اقتصادی پالیسیوں کے نتیجہ میں تباہ حال امریکی معیشت سدھارنے کا بیڑا اٹھایا۔

کلنٹن اور ان کے مشیروں نے ایک جامع اقتصادی منصوبہ پیش کیا جس کے مطابق متوسط اور نچلے طبقے کے شہریوں کو ریلیف دینا اور انتہائی خطرناک حد تک پہنچنے والے بجٹ کا خسارہ کو ختم کرنا تھا۔

کلنٹن نے اندازہ لگا لیا تھا کہ بجٹ خسارہ جو کئی سوبلین ڈالر تک جا چکا ہے،کسی بھی وقت امریکی معیشت کا کباڑا کر دے گا۔ امریکی سسٹم میں کوئی بھی صدارتی امیدوار یا دانش ور خیالی منصوبہ نہیں پیش کر سکتا کہ میڈیا اگلے ہی دن اس کی دھجیاں اڑا دیتا ہے۔

مزید پڑھیں: عمران خان کی نااہلی کا بوجھ ن لیگ کو اٹھانا پڑ رہا ہے، سلمیٰ بٹ

بجٹ خسارہ کم کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔کلنٹن کی ٹیم نے مہنیوں کی محنت کے بعد ایک قابل عمل منصوبہ پیش کیا، اس میں اعداد و شمار پر خاص توجہ دی گئی۔
باب وڈورڈ نے اپنی کتاب میں کئی کئی گھنٹے جاری رہنے والی ان میٹنگز کی تفصیل بیان کی، جن میں خسارہ گھٹانے اور معیشت میں تیزی لانے کے طریقوں پر غور ہوتا رہا۔

کلنٹن خود ان میٹنگز میں شامل ہوتا اور بعض اقتصادی ماہرین کے مطابق اس نے ہر اہم معاشی تجزیہ اور مضمون پڑھا ہوتا۔ الیکشن جیت لینے کے بعد کلنٹن نے اعلان کیا کہ صدارت کے پہلے سال میں خسارہ نصف کر دیا جائے گا۔

یہ وعدہ بعد میں پورا کر دیا گیا۔کلنٹن نے اپنے چار سال مکمل کیے تو امریکا کا ٹریلین ڈالرز کا خسارہ ختم ہوچکا تھا۔ اپنی معاشی کامیابیوں کی بنا پر کلنٹن کو دوسری بار بھی خاصے مارجن سے کامیابی حاصل ہوئی۔

مزید پڑھیں: آپریشن بنیان مرصوص پر اہم کتاب نے بھارت کے دعوؤں کا پول کھول دیا

باب وڈورڈ کی کتاب ایک انتہائی خشک موضوع پر لکھی ہونے کے باوجود اس قدر دلچسپ اور ڈرامائی ہے کہ عام قاری بھی اس سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔

خاصا عرصہ پہلے پڑھی ہوئی یہ کتاب مجھے آج کل کے حالات اور حکمرانوں کے کنفیوز بیانات دیکھ کر یاد آئی۔ کتاب دوبارہ سے نکال کر پڑھی تو خیال آیا کہ اس کتاب کو پاکستانی سیاست دانوں خصوصاً ہماری آج کل کی حزب اقتدار اور اپوزیشن کو لازمی پڑھنا چاہیے تاکہ اندازہ ہو کہ کس طرح دور رس نتائج کے لئے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی پلاننگ اور پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔

دراصل پاکستانی سیاست اور ہماری سیاسی جماعتوں میں ایک روایتی کمزور ی موجود ہے۔ ہم آنے والے دن کی تیاری کبھی نہیں کرتے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ آج کی حزب اقتدار میں موجود بڑی سیاسی جماعتیں کبھی اپوزیشن میں تھیں اور آج کی اپوزیشن ماضی میں حکمران جماعت تھی۔

مزید پڑھیں: بھارت نے کشمیر پر حقائق چھپانے کے لیے 25 کتابوں پر پابندی لگادی

ان میں سے کسی نے مگر کچھ بھی نہیں سیکھا۔ ہر بار یہ اقتدار میں آنے کے بعد ٹاسک فورس بناتے ہیں، کمیٹیاں اور کمیشن بناتے ہیں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے کبھی غوروفکر نہیں کرتے کہ موقع ملنے پر کیا کیا اصلاحات لانی ہیں؟

دنیا بھر میں اپوزیشن جماعتیں اپنے ماہرین اکٹھے کرکے ایک جامع اقتصادی و معاشرتی پلان تیار کرتی ہیں، جس پر اقتدار ملنے کے بعد عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ وہ ماہرین مجوزہ پلان کی جزئیات تک واضح رکھتے ہیں تاکہ کسی ابہام کے بغیر معیشت کو سدھارا اور دوسری اسٹرکچرل تبدیلیاں لائی جا سکیں۔

ہمارا سب سے بڑا چیلنج معیشت کو سنوارنا، بجٹ خسارہ دور کرنا اور قرضے اتارنا ہے۔ اس نکتہ پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔یہ وہ چیلنج تھا جو کلنٹن نے پندرہ سال پہلے قبول کیا تھا، مگر اتنے بڑے چیلنج کے لیے بھرپور تیاری اشد ضروری ہے۔

مزید پڑھیں: اتنی مہنگی کتاب: 1937 میں شائع ہوئی ’دی ہوبٹ‘ کا پہلا ایڈیشن کتنے پاؤنڈز میں فروخت ہوا؟

اکثر مجھے مختلف یونیورسٹی طلبا ای میل اور ٹیکسٹ میسجز بھیجتے رہتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دوسرے جمہوری ممالک میں انتخابی نعروں پربڑی حد تک عمل ہوجاتا ہے، جبکہ ہمارے سابق ادوار میں ایسا کچھ نہیں ہوسکا؟

باب وڈورڈ کی کتاب پڑھ کر ایک فوری جواب تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہاں سیاسی جماعتیں اپنا ایجنڈا انتخابات سے پہلے ہی تیار کرلیتی ہیں، جبکہ ہمارے ہاں اقتدار حاصل کرنے کے بعد ایجنڈا بنانے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔

فرانسیسی مرد آہن نپولین نے ایک بار یہ بے رحم تبصرہ کیا تھا ’جنگ شروع ہو جانے کے بعد صف بندی کے احکامات صادر کرنے والے جرنیل کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ پسپائی اختیار کرلے۔‘

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp