بھارت نے دریائے ستلج میں سیلابی ریلا چھوڑنے سے متعلق پاکستانی حکام کو آگاہ کردیا ہے۔ اس اطلاع کے بعد وزارتِ آبی وسائل کی جانب سے فلڈ الرٹ جاری کردیا گیا۔
دریائے ستلج میں جاری اونچے درجے کے سیلاب کے باعث پنجاب کے ضلع بہاولنگرمیں شدید تباہی کا سامنا ہے۔
کمال چوک کے قریب سیم نالہ بند ٹوٹ گیا، جس کے نتیجے میں بستی بہاون شاہ، آبادی قادری مل، قمر دین بودلہ اور دیگر علاقے سیلابی ریلے کی لپیٹ میں آگئے۔
پانی کے بہاؤ میں تیزی سے اضافہ جاری ہے اور ضلع بہاولنگر کو ملک بھر سے ملانے والی مرکزی شاہراہ زیرآب آنے کا سنگین خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سیلابی ریلے جنوبی پنجاب میں داخل، صوبے میں 24 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر
ہیڈ گنڈا سنگھ سے بھارت کی جانب سے آنے والے نئے سیلابی ریلے نے ہیڈ سلیمانکی پہنچنا شروع کر دیا ہے، جہاں پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
دریائے ستلج میں پانی کی آمد ایک لاکھ 42 ہزار کیوسک سے زائد ریکارڈ کی گئی، جس کے باعث بابا فرید پل اور بھوکاں پتن پل کے نیچے بھی پانی کی سطح بلند ہونے لگی ہے۔
سیلاب سے متاثرہ دریائی بیلٹ میں تقریباً 130 مواضعات، سینکڑوں بستیاں اور 160,000 سے زائد آبادی متاثر ہوگئی ہے۔
مزید پڑھیں:پنجاب میں سیلاب کا خطرہ مکمل طور پر ٹل نہیں سکا، پی ڈی ایم اے نے خبردار کردیا
متاثرین کی اپنی مدد آپ کے تحت ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد افراد نقل مکانی کر چکے ہیں، جبکہ 50,000 سے زائد جانور محفوظ مقامات پر منتقل کیے گئے ہیں۔
ضلعی انتظامیہ نے 19 فلڈ ریلیف کیمپس قائم کیے ہیں، جہاں متاثرین کو کھانا، طبی سہولیات اور جانوروں کے لیے چارہ فراہم کیا جا رہا ہے۔
ایک لاکھ ایکڑ سے زائد کھڑی فصلیں اور ہزاروں مکانات پانی کی نذر ہو چکے ہیں، جبکہ دریائی بیلٹ میں بجلی کا نظام معطل ہو گیا ہے۔
مزید پڑھیں:پنجاب میں سیلاب سے کتنے نقصانات ہوئے، پی ڈی ایم اے نے تفصیلات جاری کردیں
مزید برآں، ضلعی انتظامیہ نے دریائی علاقے کے 34 اسکولز کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کرتے ہوئے ہائی فلڈ الرٹ جاری کیا ہے۔ ریسکیو 1122 کی ٹیمیں آپریشن میں مصروف ہیں اور 3,500 سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے رابطہ سڑکیں بہہ گئی ہیں، درجنوں بستیوں کے زمینی راستے منقطع ہو چکے ہیں، اور ہزاروں افراد گھروں میں محصور ہیں۔
ضلعی انتظامیہ نے متاثرہ علاقوں کے مکینوں کو فوری نقل مکانی کی ہدایت کرتے ہوئےامدادی سرگرمیاں تیز کردی گئی ہیں تاکہ کھانے پینے کی اشیا، دواؤں اور جانوروں کے چارے کی قلت کو پورا کیا جا سکے۔