اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ تجویز کے تحت فلسطین اور اسرائیل کے 2 ریاستی حل پر اعلیٰ سطحی کانفرنس دوبارہ شروع کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ اجلاس 22 ستمبر کو ہوگا۔
سعودی عرب کا مؤقف
اقوام متحدہ میں سعودی نمائندے عبدالعزیز الوسیل نے کہا کہ یہ اقدام کسی ایک فریق کے خلاف نہیں بلکہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کے لیے مشترکہ عزم کا اظہار ہے۔
Together for the 2-state solution, for justice, for peace and for ending the war on Gaza and the starvation of its people. We thank Saudi Arabia & France for their leadership in organizing the UN conference on the 2-state solution. The conference is a global reiteration of… pic.twitter.com/eYOaZ7YCGR
— Ayman Safadi (@AymanHsafadi) July 29, 2025
ان کا کہنا تھا کہ فلسطین میں صورتحال انتہائی سنگین ہے، تشدد اور انسانی بحران بڑھ رہا ہے اور امن کی امید کمزور پڑتی جا رہی ہے، اس لیے اس عمل کو جاری رکھنا ضروری ہے۔
اسرائیل اور امریکا کا ردعمل
اسرائیل نے اس فیصلے کو ’تماشا‘ اور ’ڈھونگ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے امن آگے بڑھنے کے بجائے جنگ کو طول ملے گا اور حماس کو مزید حوصلہ ملے گا۔
اسرائیلی نمائندے نے الزام لگایا کہ اس تجویز کے پیچھے شفافیت نہیں ہے اور یہ امن کے بجائے سیاسی مقاصد کے لیے بنایا گیا ہے۔

امریکا نے بھی تجویز کو ’بے وقت تماشا‘ قرار دیتے ہوئے مخالفت کی اور اعلان کیا کہ واشنگٹن اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوگا۔
امریکی نمائندے نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات امن عمل کو نقصان پہنچاتے ہیں اور دہشت گرد گروپ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کا فوکس سنجیدہ سفارتکاری پر ہے، نہ کہ دکھاوے کے اجلاسوں پر۔














