کرہ ارض اس وقت جس بڑے خطرے سے دوچار ہے وہ ہے بڑھتی ہوئی گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار۔
یہ وہ گیسیں ہیں جو سورج کی گرمی کو زمین کی فضا میں قید کر لیتی ہیں، نتیجتاً درجہ حرارت بڑھتا ہے اور عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی دن بدن تیز رفتار ہوتی جا رہی ہے۔ اسی وجہ سے گلیشیئر پگھل رہے ہیں، سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے، ہیٹ ویوز میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے بين الاقوامی معاہدوں کَیوتو پروٹوکول اور پیرس معاہدہ کے مطابق درج ذیل گیسوں کو گرین ہاؤس گیسیں قرار دیا گیا ہے:
1- کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO₂)
کرہ ارض پر یہ سب سے زیادہ مقدار میں اخراج والی گیس وہ ہے جو جنگلات کے کٹنے صنعتوں کے چلنے اور ایندھن جلانے سے پیدا ہوتی ہے، یہ ریفرنس گیس مانی جاتی ہے اس کا گلوبل وارمنگ پوٹینشل (GWP) 1 ہے۔
2- میتھین (CH₄)
میتھین انتہائی طاقتور گرین ہاؤس گیس ہے، اس کا اخراج زراعت میں چاول کی کاشت، مویشیوں، تیل و گیس کی پیداوار اور لینڈ فلز سے ہوتا ہے۔ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ سے 100 سالہ پیمانے پر 28 تا 34 گنا زیادہ طاقتور ہے۔
3- نائٹرس آکسائیڈ (N₂O)
یہ زیادہ تر کھاد کے استعمال صنعت اور ایندھن جلانے سے خارج ہوتی ہے، 100 سالہ پیمانے پر اس کا GWP کاربن ڈائی آکسائیڈ سے 265 سے 298 ہے۔ باالفاظ دیگر یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں سینکڑوں گنا زیادہ نقصان دہ ہے۔
4- فلورینیٹڈ گرین ہاؤس گیسز
ا- ہائیڈرو فلوورو کاربنز
ب- پر فلوورو کاربنز
پ- سلفر ہیکسا فلورائیڈ
ج- نائٹروجن ٹرائی فلورائیڈ
یہ سب فلورینیٹڈ گرین ہاؤس گیسز (F-gases) کہلاتی ہیں، جو انسانی سرگرمیوں انڈسٹری، ریفریجریشن، الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ وغیرہ سے خارج ہوتی ہیں۔ ان کی مقدار فضا میں کم ہوتی ہے لیکن گرمی روکنے کی صلاحیت (GWP) بہت زیادہ ہے اسی لیے یہ ماحولیاتی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
یہ تمام گیسیں حرارت کو زمین کی فضا سے باہر جانے سے روکتی ہیں، جسے گرین ہاؤس ایفیکٹ کہا جاتا ہے، نتیجتاً زمین کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق اگر یہ رجحان جاری رہا تو صدی کے اختتام تک درجہ حرارت میں 2 سے 3 ڈگری اضافہ ہو سکتا ہے اور یہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت خشک سالی، سمندری طوفان، زرعی پیداوار میں کمی اور انسانی صحت پر سنگین اثرات مرتب کرے گا۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج توانائی کے شعبہ، بجلی گھروں اور گاڑیوں میں کوئلہ، تیل اور گیس جلانے سے ہوتا ہے۔ کچرا، لینڈ فلز، کوڑے، زراعت اور مویشیوں کے نظام ہاضمہ سے میتھین اور کھاد کے زیادہ استعمال سے نائٹروجن آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے۔ صنعت، سیمنٹ، اسٹیل اور کیمیکل انڈسٹری بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن آکسائیڈ پیدا کرتی ہیں۔
ان گیسوں کے اخراج میں کمی کے لئے جو اقدامات ناگزیر ہیں ان میں:
زیر استعمال توانائی میں تبدیلی کرنا ہو گی، کوئلہ اور تیل کی جگہ شمسی، ہوائی اور پن بجلی جیسی قابل تجدید توانائی اپنانا ہو گی۔
ٹرانسپورٹ کے ایندھن میں متبادل میں برقی گاڑیاں (EVs)، پبلک ٹرانسپورٹ اور بڑے ٹرکوں میں ایندھن کی بچت والی ٹیکنالوجیز مستعمل کرنا ہوں گی۔
شعبہ زراعت میں جدت لانا ہو گی کھاد کا درست استعمال، جانوروں کی خوراک میں تبدیلی، چاول کے کھیتوں میں پانی کے انتظام کے جدید طریقے رائج کرنا ہوں گے۔
صنعتی اصلاحات لاگو کرنا ہوں گی، کم کاربن ٹیکنالوجیز، نائٹرس آکسائیڈ کو کم کرنے والے کیٹالسٹس اور تعمیرات میں گرین بلڈنگ مٹیریل پر منتقل ہونا ہو گا۔
ان گیسوں کے منفی اثرات سے محفوظ رہنے کے لئے مختلف شعبہ جات میں متعدد اقدامات لازم ہیں مثلاً:
جنگلات کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں ان کے رقبے میں خاطر خواہ اضافے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
سمندر کا پانی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو حل کرتا ہے اور فائٹوپلانکٹن کے ذریعے یہ گیس سمندر کی تہہ میں محفوظ ہو جاتی ہے۔
مینگرووز اور سی گراس بلیو کاربن اسٹور کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
انجینئرڈ اسٹوریج: کاربن کیپچر اینڈ اسٹوریج (CCS) کے ذریعے صنعتوں سے نکلنے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضا سے زمین کے اندر محفوظ کیا جاتا ہے ان مقامات پر جہاں لاکھوں سال تک قدرتی گیس اور تیل موجود رہا ہو۔
لینڈفل گیس کیپچر کے ذریعے کچرے سے نکلنے والی میتھین کو پائپنگ کے ذریعے جمع کر کے بجلی بنانے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
فلورینیٹڈ گیسز کی ری سائیکلنگ: ایئر کنڈیشنرز اور ریفریجریٹرز سے پرانی گیسیں نکال کر دوبارہ استعمال یا محفوظ طریقے سے ختم کئے جانے سے ان کے نقصان دہ اثرات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
گرین ہاؤس گیسیں صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ تک محدود نہیں ہیں، بلکہ میتھین، نائٹرس آکسائیڈ اور صنعتی گیسیں بھی کافی خطرناک گیسیں ہیں بلکہ ان کی شدت کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھی زیادہ ہے۔
ان گیسوں کے اخراج میں کمی اور محفوظ ذخیرہ کرنے کے اقدامات بیک وقت اپنانے ہوں گے، کیونکہ یہ ایک عالمی چیلنج ہے جس کا حل پالیسی، ٹیکنالوجی اور عوامی شعور کے امتزاج میں ہے، اگر ہم نے بروقت فیصلے نا کیے تو آنے والی نسلوں کے لئے زمین ایک غیر محفوظ مقام بن سکتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔