سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کے جج کے بیٹے کے قتل کیس میں اہم فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم سکندر لاشاری کو بری کردیا۔ جبکہ شریک ملزم عرفان کی رہائی کا بھی حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ کےجج جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے مجرمان کی اپیلوں پر سماعت کی، جس کے دوران عدالت نے ٹرائل کورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اپیلیں منظور کر لیں۔ اور دونوں ملزمان کی رہائی کا حکم دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: خواجہ شمس الاسلام قتل کیس: سندھ ہائیکورٹ میں کارروائی جزوی طور پر معطل
قبل ازیں جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں قائم بینچ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سماعت کے دوران ملزم سکندر لاشاری کے وکیل لطیف کھوسہ نے مؤقف اپنایا کہ ان کا موکل خود ماتحت عدلیہ کا جج تھا اور اس پر محض اعانت کے الزام پر سزائے موت سنائی گئی۔
وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ نہ قتل کا کوئی براہِ راست ثبوت ہے اور نہ ہی اعانت کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد پیش کیے گئے۔
دوسری جانب مقتول کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ مقتول حنین طارق کا ملزم کی بیٹی کے ساتھ تعلق تھا، جس کے شواہد مقتول کے موبائل فون سے ملے پیغامات سے ریکارڈ پر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم نے اپنے ویڈیو بیان میں تسلیم کیا کہ اس کا مقصد قتل کرانا نہیں بلکہ مقتول کو پٹوانا تھا، تاہم اس نے قتل میں استعمال ہونے والے 5 پستول بھی برآمد کرائے۔
بینچ کے جج صاحبان نے دورانِ سماعت تفتیش پر سخت سوالات اٹھائے، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر مقتول کے فون کا فورینزک نہیں ہوا تو شواہد کی اہمیت مشکوک ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کیس اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا کریمنل جسٹس سسٹم ناکامی کا شکار ہے، کیا قتل جیسے سنگین مقدمے میں اسی طرح کی تفتیش کی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جج کے بیٹے کے قتل کیس میں تفتیش پر سوالات، سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا
جسٹس شہزاد ملک نے بھی ویڈیو بیان کے عدالتی تقاضوں اور اس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کرائے کے قاتلوں کے ذریعے قتل کرانے والا شخص پستول اپنے پاس کیوں رکھے گا۔
واضح رہے کہ 2014 میں غیرت کے نام پر حنین طارق کو قتل کیا گیا تھا، ٹرائل کورٹ نے سکندر لاشاری کو قتل میں اعانت پر سزائے موت اور شریک ملزم عرفان کو 25 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ مقتول حنین طارق سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس خالد شاہانی کے بیٹے تھے۔














