سعودی عرب نے خطے میں اسرائیلی حملوں کو مسترد کرتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے، جن میں منگل کو قطر پر ہونے والی ’بربریت پر مبنی جارحیت‘ بھی شامل ہے۔
یہ بات سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بدھ کے روز شاہ سلمان کی جگہ شوریٰ کونسل سے سالانہ خطاب میں کہی۔
سعودی ولی عہد نے کہا کہ ایسے جارحانہ اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے عرب، اسلامی اور عالمی سطح پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قطر پر اسرائیلی حملہ: پاکستان، سعودی عرب اور ایران کی شدید مذمت
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوج کو اپنی مجرمانہ کارروائیوں سے باز رکھنے کے لیے بھی بین الاقوامی اقدامات ناگزیر ہیں، کیونکہ یہ کارروائیاں خطے کے امن اور استحکام کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔
’ہم قطر کے ساتھ اس کے تمام اقدامات میں بغیر کسی حد کے کھڑے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہاکہ ہم غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف جاری وحشیانہ حملوں، بھوک اور جبری بے دخلی کے جرائم کی بھی سخت مذمت کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں:سعودی عرب کا غزہ میں فوری جنگ بندی پر زور
’غزہ کی زمین فلسطینیوں کی ہے اور ان کے حقوق ناقابلِ تنسیخ ہیں، جو نہ جارحیت سے چھینے جا سکتے ہیں اور نہ ہی دھمکیوں سے کالعدم ہو سکتے ہیں۔‘
سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ ہمارا مؤقف غیر متزلزل ہے، ان حقوق کا تحفظ اور ان کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے بھرپور کوششیں جاری رکھیں گے۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے یاد دلایا کہ2002 میں مملکت کی جانب سے پیش کی جانے والی عرب امن تجویز، جو آج 2 ریاستی حل کے تناظر میں عالمی سطح پر تسلیم کی جا چکی ہے، فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک بے مثال راستہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ مملکت کی ان کوششوں کے ثمرات سامنے آئے ہیں، جن میں مزید ممالک کی جانب سے ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرنا اور جولائی میں نیویارک میں فلسطینی مسئلے کے پرامن حل اور 2 ریاستی فارمولے کے نفاذ کے لیے ہونے والی اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس شامل ہے.
شام کے بارے میں ولی عہد نے کہا کہ مملکت نے کئی اقدامات کیے ہیں، جن میں بین الاقوامی پابندیاں ختم کرانے کی کامیاب کوششیں اور شام کی علاقائی سالمیت کو یقینی بنانے اور اس کی معیشت کی بحالی کے لیے تعاون شامل ہے۔
مملکت کی معیشت پر بات کرتے ہوئے ولی عہد نے کہا کہ سعودی عرب معیشت کو متنوع بنا رہا ہے اور تیل پر انحصار کم کرنے کی اپنی صلاحیت ثابت کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں:غزہ کے حوالے سے او آئی سی اجلاس میں سعودی عرب کا کردار لائق تحسین ہے: فلسطینی سفیر ڈاکٹر زہیر زید
’ہماری تاریخ میں پہلی بار، غیر تیل شعبوں نے مجموعی قومی پیداوار کا 56 فیصد حصہ حاصل کیا ہے، جو 4.5 کھرب ریال سے تجاوز کر گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ کامیابیاں اور دیگر اقدامات سعودی عرب کو دنیا بھر کی سرگرمیوں کے لیے ایک عالمی مرکز بنا چکے ہیں، جہاں 660 بین الاقوامی کمپنیوں نے اپنا علاقائی ہیڈکوارٹر بنایا ہے، جو 2030 کے ہدف سے بھی زیادہ ہے۔
’یہ کامیابیاں مملکت کے انفرا اسٹرکچر اور ٹیکنیکل سہولتوں کی سطح کو ظاہر کرتی ہیں اور سعودی معیشت کی مضبوطی اور وسیع مستقبل کی نشاندہی کرتی ہیں۔‘