وزیراعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں حالیہ شدید بارشوں اور تباہ کن سیلاب کے باعث ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ کا اجلاس، ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی کے نفاذ کی اصولی منظوری
انہوں نے کہا کہ سیلاب سے سینکڑوں اموات اور وسیع پیمانے پر زرعی نقصان ہوا ہے جس پر فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔
واضح رہے کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سیلاب میں اب تک تقریباً ایک ہزار افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں جبکہ سب سے زیادہ نقصان زرعی شعبے کو پہنچا ہے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم نے وفاقی وزیر احسن اقبال کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بھی قائم کر دی ہے جو نقصانات کا تخمینہ لگائے گی اور بحالی کے اقدامات تجویز کرے گی۔
وزیراعظم نے وفاق اور صوبوں کو مشترکہ طور پر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ہدایت بھی کی ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ آخر زرعی اور ماحولیاتی ایمرجنسی کا مطلب کیا ہے، اس کا کیا فائدہ ہوگا اور کیا ایسا ممکن بھی ہے یا پھر یہ صرف ایک سیاسی بیان کی حد تک ہے؟
مزید پڑھیے: سیلاب سے بے پناہ جانی اور اقتصادی نقصان ہوا، وزیراعظم کا ملک میں موسمیاتی اور زرعی ایمرجنسی کا اعلان
اس حوالے سے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کلائمیٹ ایکسپرٹ آصف شجاع کا کہنا تھا کہ زرعی اور ماحولیاتی ایمرجنسی ایک ایسا سرکاری یا حکومتی اعلان ہوتا ہے جس میں تسلیم کیا جاتا ہے کہ ملک کی زراعت اور ماحول کو فوری اور شدید خطرات لاحق ہیں اور ان خطرات سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
آصف شجاع کے مطابق پاکستان کو فوری طور پر ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی نافذ کرنی چاہیے تاکہ ماحول اور زراعت کو درپیش شدید خطرات سے نمٹا جا سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی ایمرجنسی میں نقصان شدہ ماحول کی بحالی، آلودگی کے صحت پر اثرات کی نگرانی، سیلاب کی وجوہات کی تحقیقات اور حفاظتی منصوبوں کی اپڈیٹ شامل ہونی چاہیے۔
مزید پڑھیں: سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع اور زرعی ایمرجنسی نافذ کی جائے، بلاول بھٹو
انہوں نے ارلی وارننگ سسٹمز کی بہتری بشول پہاڑی علاقوں میں ایکس بینڈ ریڈار کی تنصیب اور سیلاب سے بچاؤ کے پہلے سے تیار شدہ منصوبوں پر عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا۔
ان کے مطابق زرعی ایمرجنسی میں ہائیڈروپونک زراعت کو فروغ دینا، فصلوں کے نقصانات کا جائزہ لے کر ضروری امداد فراہم کرنا، متاثرہ کسانوں کو معاوضہ دینا اور اگلی فصل کے لیے پرکشش سپورٹ پرائس کا اعلان شامل ہے۔
آصف شجاع نے کہا کہ سیلابی علاقوں میں مضبوط بند باندھنا، مستقل پناہ گاہیں بنانا، دیہی لوگوں کو ایمرجنسی کی تربیت دینا اور سیلاب مزاحم گھروں کے لیے سستے قرضے فراہم کرنا بھی ضروری اقدامات میں شامل ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے: مون سون کا آخری اسپیل اختتام کے قریب،5 ہزار سے زائد دیہات زیر آب: چیئرمین این ڈی ایم اے
انہوں نے کہا کہ اگر یہ اقدامات عملی طور پر کیے گئے تو پاکستان اپنے ماحولیاتی اور زرعی چیلنجز کا بہتر مقابلہ کر سکتا ہے ورنہ یہ محض سیاسی نعرہ ہی رہے گا۔