آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، یہ جملہ چیف جسٹس آف پاکستان نے عمران خان کو عدالت میں کہا۔ اس جملے نے بڑے بڑوں کو حیران کیا کہ کس بات کی خوشی؟ 72 گھنٹوں سے کم وقت میں ریلیف ملنا اپنی نوعیت کی نئی مثال ہے۔ گرفتاری کے طریقہ کار سے سب کو اعتراض تھا لیکن جس طرح چیف جسٹس عمران خان سے مخاطب ہوئے ، چیف جسٹس کم اور عمران خان کے فین زیادہ لگے۔ اگر کوئی فین اپنی پسندیدہ شخصیت سے ملے تو خوشی تو بنتی ہے اور ہر انسان کا حق ہے کہ اپنی پسند کا اظہار بھی کرے لیکن اگر آپ کا منصب اور ذمے داری انصاف کا تقاضہ کرے تو ایسے مکالمے سے جانب داری کا شک پڑتاہے۔
جو لیڈر اپنے کارکنان کو اشتعال دلائے، جس کے کارکنان سرکاری عمارتوں سے لوٹے ہوئے سامان کو مال غنیمت کہیں اس کو دیکھ کر کس بات کی خوشی؟ جو لیڈر اسلامک ٹچ کا سیا سی استعمال کرے ، جس کے چاہنے والے مذہب کی حدود کا خیال نہ کرتے ہوئے تعریفوں میں اس حد تک آگے بڑھ جائے کہ عدم برداشت سے بھرا معاشرہ اسے سڑک پہ جان سے مار دے۔ کیا اس لیڈر کو اپنے کارکنان کو لگام نہیں ڈالنی چاہئے تھی؟ آپ کو کس بات کی خوشی ہوئی سر ؟
کسی بھی الزام کا ثبوت نہ دے اور اس بات کا خیال نہ کرے کہ اس کے بیانات سے معاشرے میں خطرناک تقسیم میں اضافہ ہورہا ہے، تاریخ میں پہلی دفعہ جناح ہاؤس، کور کمانڈر ہاؤس لاہور، پاکستان کی کسی سیاسی جماعت نے جلایا۔
اس سے پہلے ایسے واقعات میں بی ایل اے اور ٹی ٹی پی ملوث رہی۔ کیا عمران خان نے اپنے کارکنان کو انتہا پسندی کے جس رستے پر چلایا ہے وہ اس کے ذمے دار نہیں؟ وہ اس سب کے لیے شرمندہ کیوں نہیں ہیں؟ وہ ایدھی ایمبولینس جو شائد کسی مریض کہ کے لیئے کہیں روانہ تھی، اسے آگ لگا دینا کہاں کا سیاسی شعور ہے؟ کیا کسی غریب ، کیا کسی مریض کی جان کی قیمت عمران خان کی جان سے کم ہے؟چیف جسٹس صاحب آپ کو کس بات کی خوشی ہوئی؟
2014میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے 22 دن کے احتجاج سے547 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ ایکسچنج ریٹ 4.3 % پر آگیا،سٹاک ویلیو کم ہو کر 319 ارب ہو گئی۔ ملکی قرضے میں 228 ارب کا اضافہ ہوا۔ حالیہ احتجاج سے ٹیلی کام انڈسٹری کو 1.6 بلین کا نقصان ہوا۔ سروس ڈسٹرپشن کی وجہ سے حکومت کو 547 ملین روپے کا نقصان ہوا۔
سیاسی غیر یقینی کی وجہ سے سر مایہ کاروں کو 143 ارب کا نقصان ہوا ہے۔ اور اب تک مختلف سطح پر ہونے والے نقصان کی مزید رپوٹس آرہی ہیں ۔ ان حالات میں ملک کی چیف جسٹس جو انصاف کی علامت ہیں ان کا اس سب بربادی کو ایک طرف رکھتے ہوئے خان صاحب کو ویلکم کہنا سمجھ سے باہر ہے ۔
ایک خبر کی مطابق پشاور سے ایک 14 سالہ طالبعلم کو گرفتا کیا گیا جس کے پاس اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں ایسی افراتفری میں کیسی خوشی؟ایسا نہیں کہ اس نقصان میں صر ف پی ٹی آئی نے اپنا حصہ ڈالا ایک رپوٹ کے مطابق 2017 سے ٹی ایل پی کی احتجاج سے 35 ارب کا نقصان ہوالیکن جو نقصان اداروں کو ہوا آنے والے نسلوں کے اعتماد کو ہوا وہ آج تک لکھا نہیں جا سکا۔ کیا اسٹبلشمنٹ اپنی پالیسیز پر غورکرے گی ؟ کیا فوجی املاک کو نقصان پہنچنے کے بعد یہ سوچا جائے گا کہ اس کی نوبت کیوں آئی؟
کیا عمران خان اگلے الطاف حسین ہوں گے؟ کیا مزید سیاسی پروجیکٹس پر کام ہوگا؟ جس نقصان کی خوشی آپ کے دشمن کو بھی ہے اس کا ازالہ کیسے کریں گے؟ کیا گرفتاری کے بعد جو پیغام عمران خان کو ملا ہے وہ سب کے لیے ہے؟ کیا عمران خان کی کرپشن کے ساتھ ساتھ 190 ملین پاؤنڈز کا حساب ہوگا؟
حالات وواقعات سے لگتا ہے کہ ملک میں کسی نے کچھ نہیں سیکھا۔ لیکن فوجی تنصیبات کا لحاظ اگر ختم ہو رہا ہے تو یہ سوچنا بہت ضروری ہے کہ کس کس ادارے کس کس سیاسی جماعت نے ریاست کا نہیں ، وقتی مفاد کا سوچا ۔
جس وقت جناح ہاؤس جلایا گیا جب ریڈیو پاکستان کی عمارت کو راکھ کیا گیا کوئی ایسا سوموٹو کیوں نہیں لیا گیا جو کسی کو جوابدہ کرے؟بلکہ اکسانے والوں کو دیکھ خوشی ہوئی ۔ کیوں ۔۔ ؟
جنرل باجوہ کی آخری تقریرجس میں سیاسی کردار کا اعتراف کیا گیا ۔ اس اعتراف کے بعد سزائیں کیوں نہیں ہو سکتی؟ حمودالرحمان کمیشن رپوٹ سے شروع کریں۔۔۔۔
1971ء کی جنگ کی شکست کی تحقیقات کے لئے اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے 26 دسمبر1971ء کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حمودالرحمان کی سربراہی میں ایک ٹریبونل قائم کیا تھا ۔25نومبر 1974ء کو یہ تحقیقات مکمل ہوئیں لیکن کبھی منظر عام پر نہیں آئیں۔ 21 اگست 2000ء کو بھارت کے ایک میگزین انڈیا ٹو ڈے نے اس رپورٹ کا خلاصہ شائع کر دیا تھا جسے 30 دسمبر2000ء کو حکومت پاکستان نے سرکاری طور پر شائع کر دیا۔ لیکن وہ کونسا سچ ہے جو آسانی تک عوام تک پہنچایا گیا؟تاریخی طور پر تقریبا 11 سے زائد کمیشنز کی رپوٹس بے اثر ثابت ہوئی۔
ایسا منصف ہو جو سچ کا سامنا کر سکے جو ایک بینچ کو ہی انصاف کے قابل نہ سمجھے جو انصاف کے لیے شفافیت پر یقین کرے ۔کیا چیف جسٹس بندیال صاحب ایسا کر رہے ہیں؟ ہم بس سوال کر سکتے ہیں۔ آئ ایس پی آر کا کا مؤقف واضح اور خطرناک ہے کیوں کہ اب کسی کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔ لیکن صرف بیانات کی حد تک احساس ذمےداری نہیں چاہئے ۔ برداشت اور سیاسی بردباری ثابت کرنی ہو گی اور وہ بھی اسٹبلشمنٹ کے بھیک کے بغیر۔ اتنی ہمت کونسا سیاست دان ہے جو کر کے دیکھائے گا جو اپنے ایجنڈے پہ آگے آنے کی کوشش کرے؟ کون ہوگا وہ؟
عمران خان نے ایک نئی لڑائی تومول لی ہے لیکن بیساکھیوں کی عادت تو انہیں بھی ہے۔ اتنی سیاسی لڑائیوں میں ایک چیف جسٹس کا عہدہ ہے جس سے پورا سسٹم آس لگائے ہوئے ہے۔چیف جسٹس کا منصب ایسا ہے کہ ان سے ایسے غیر ذمے دارا نہرویے کی توقع نہیں کی جا سکتی وہ منصف ثابت ہو سکتے تھے نہیں ہوئے ۔۔۔۔،۔چیف جسٹس صاحب آپ کو جناح ہاؤس کی جلنے کے بعد بھی عمران خان کو دیکھ کر خوشی کیسے ہوئی؟