میں اِس ٹائم اپنے پیارے ملک سے اتنی دور ہوں… وی پی این پر. ان ہنگامی حالات کے دوران مجھے کبھی کینیڈا جانا پڑا اور کبھی فرانس . ملک بھر میں انٹرنیٹ بند ہونے پر آزادی تو نہیں لیکن وی پی این ہی ہم سب کی دلہن بن گئی . میں اِس وقت اپنی دلہن مطلب وی پی این کے ساتھ ہوں کیوں کہ انٹرنیٹ بحال ہونے کے باوجود بھی ہم کسی ویب سائٹ تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔
آنی تو ویسے سب کو شرم چاہیے لیکن آیا انقلاب ہوا ہے. پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان کو جب گرفتار کیا گیا تو ان کے دیوانوں نے ملک کو کہا “اج نا چھوڑوں گا تجھے ، دم دما دم” . جہاں ٹائر جلانا ، کسی کے ٹرک کو اُڑا دینا ، کسی کو مارنا وغیرہ لوگوں کو انقلاب کا حُسْن لگتا ہے ، وہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے انقلاب میں ایک نئی روح پھونک دی .
کور کمانڈر کے گھر سے لوگوں نے قورمہ اٹھایا جو کہ بالکل تازہ بنا ہوا تھا . پِھر لوگوں نے کھانے کے بعد میٹھے کا سوچتے ہوئے اسٹرابیریز اٹھائی .اور كھانا کھانے کے بعد کا سوچتے ہوئے ایک دو مور اٹھا لئے تاکہ دِل بہلا رہے کیوں کے پُورا ملک تو بند تھا . پہلے تو تھوڑی سی پریشانی ہوئی کہ جس ملک میں انسانوں کو کھانے کو نہیں مل رہا ، مور کو کیا ملے گا لیکن خبر آئی کہ مور واپس آ گیا ہے . کدھر آیا ، کیسے آیا وہ تو نہیں پتہ لیکن کسی “عینی شاہد” نے بتایا ہے۔
بہت عرصے بعد “عینی شاہد” کی بھی واپسی ہوئی ہے. بہت سے واقعات جو شاید ہوئے بھی نا ہوں ، اُدھر “عینی شاہد” کی موجودگی ہر خبر کا حصہ رہی . اور “عینی شاہد” کی موجودگی رہی بھی وی پی این کے بغیر . میں بھی بڑی ہو کر عینی شاہد بنوں گی . ہمارے ملک میں ثبوت گلا پھاڑ کے ہم پر چیخ رہا ہو تو ہم اسے سننے سے انکار کر دیتے ہیں لیکن جہاں “عینی شاہد” آ جائے تو ہم فوراََ یقین کر لیتے ہیں . عینی شاہد کو میرا خاص سلام کے دھوپ چھاؤں کا عالم رہا ، عینی شاہد ، عینی شاہد ہی رہے۔
سیاسی اعتبار سے کہ کون کیا کر رہا ہے اور کیا چاہتا ہے تو مجھے صرف یہی لگتا ہے کے سب بس توجہ کا مرکز بنے رہنا چاہتے ہیں . چاہے ہماری عدالت عظمی ہو ، سلام عظمی بہن ، کیسی ہو ؟ چاہے ہمارے ملک کے بہادر اور غیور سپا سالار ہوں یا سیاست دان ہوں . جب عمران خان کی گرفتاری کے فیصلے کی سماعت کی گھڑی آئی ، تو سپریم کورٹ سب کی توجہ کا مرکز بن گئی . یہ اور بات ہے کہ عدالت عظمی میں عمران خان فوراََ ہی توجہ کو مرکز بن گئے .
ماحول کچھ یوں تھا کے معزز ججز کی خوشی چھپائے نا چُپ رہی تھی . ان کو کہنا ہی پڑ گیا کہ “عمران خان صاحب ، آپ کو دیکھ کے بہت خوشی ہو رہی ہے” . اگر حالات اجازت دیتے تو شاید معزز جج صاحبان عمران خان کے ساتھ فوٹو کھنچواتے اور آٹو گراف بھی لیتے . اور شاید آخر میں “ما صدقے جائے میلا شونا بےبی” بھی کہہ دیتے . لیکن ہم معزز جج صاحبان کے پروفیشینلزم کی داد دیتے ہیں جنہوں نے عدالت کا ڈیکورم رکھا اور کاروائی کو جاری رکھتے ہوئے بہت اچھے وقت میں فیصلہ بھی دے دیا . فیصلہ آپ کے سامنے ہے کیوں کہ عمران خان آپ سب کے سامنے ہیں !
اِس توجہ کا مرکز بن نے کے لیے پی ڈی ایم نے بھی کافی کوشش کی . لیکن وہ صرف ایک آواز تھی جو جیسے فلم میں چلتا ہوا بیک گراؤنڈ میوزک ہو . لیکن یہ میوزک سے ذیادہ ریی ریی تھی . جیسے کوئی بچہ مسلسل رو رہا ہو کبھی کسی وجہ سے اور کبھی کسی وجہ سے اور اس کی ریی ریی سن کے آپ کا بے اختیار دِل کرتا ہے کے بچے جو جھڑک دیں کہ “توں تے چُپ کر” .
میں نے حکومت میں بیٹھی پارٹی کو ایسے روتے پہلے نہیں دیکھا . ٹھیک ہے آپ کے مخالف آدمی کو بیل ملتی جا رہی ہے لیکن آپ سے کیا دو جملے بھی بغیر روئے نہیں کہے جا رہے ؟ میرا مشورہ ہے کہ آپ بولنا ہے چھوڑ دیں . خدا کی قسم آپ کی کمی کو کوئی محسوس بھی نہیں کرے گا !
یہ تو ہے انقلاب کا احوال . یہ کب تک چلے گا اور اِس کا انجام کیا ہو گا ، یہ تو نہیں پتہ لیکن اگر آپ کو انقلاب کے دوران کہیں سے بھی مفت قورمہ ملے تو اسے چھوڑئیے گا مت !