وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے اسٹریٹجک دفاعی معاہدے میں کوئی خفیہ یا ذیلی شق شامل نہیں، یہ ایک شفاف اور دوٹوک معاہدہ ہے جس کے تحت کسی ایک ملک پر بیرونی جارحیت کو دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
الجزیرہ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر دفاع نے کہا کہ خطے کی بدلتی صورتحال کے تناظر میں اس معاہدے کا دائرہ کار دوسرے خلیجی ممالک تک بھی پھیل سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر جی سی سی کے رکن ممالک میں سے کوئی ایسا اشارہ دیتا ہے تو پاکستان ان کو بھی معاہدے میں شامل کرنے پر غور کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی دفاعی معاہدہ، اہم نکات کیا ہیں؟
خواجہ آصف نے کہا کہ یہ قدرتی امر ہے کہ خطے کے ممالک اپنی سیکیورٹی کے لیے میلوں دور کسی دوسرے ملک پر انحصار کرنے کے بجائے اُس خودمختار ملک کی طرف دیکھیں جس کے پاس ان کے تحفظ کی صلاحیت اور اہلیت موجود ہو۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیتیں سعودی عرب کے لیے بھی مددگار ہوں گی۔ تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اس معاہدے کا مقصد جارحیت نہیں بلکہ باہمی دفاع ہے۔ “ہماری تاریخ میں ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال صرف ہیروشیما پر ہوا تھا، دنیا اُس سانحے کے بعد محفوظ رہی ہے اور اُمید ہے آئندہ بھی ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوگی،” وزیر دفاع نے کہا۔
مزید پڑھیں:پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تاریخی دفاعی معاہدہ، سوشل میڈیا پر لوگوں کی خوشی دیدنی
ایک اور انٹرویو میں جیو ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ یہ معاہدہ خطے میں جاری جنگوں اور کشیدگی کے تناظر میں مسلم ممالک کا بنیادی حق ہے تاکہ وہ اپنی حفاظت کے لیے مل کر کھڑے ہوں۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی تعلقات پرانے ہیں، پاکستانی افواج سعودی افواج کی تربیت کرتی رہی ہیں، اور حالیہ معاہدہ ان تعلقات کو باضابطہ شکل دینے کی سمت ایک اہم پیش رفت ہے۔