ایک تازہ سائنسی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ امریکا میں جنگلاتی آگ سے پیدا ہونے والا دھواں ہر سال کم از کم 41 ہزار اموات کا سبب بن رہا ہے، اور ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ 2050 تک یہ تعداد 71 ہزار سے تجاوز کرسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاس اینجلس: جنگلات میں آتشزدگی، 30 ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور
سائنسی جریدے نیچر میں شائع رپورٹ کے مطابق جنگلاتی آگ کے دھوئیں میں موجود زہریلے ذرات انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہورہے ہیں، خاص طور پر پھیپھڑوں اور دل کی بیماریوں کے حوالے سے۔
تحقیق کی قیادت اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہر ماحولیات پروفیسر مارشل برک نے کی۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگلاتی آگ کا دھواں ہماری سوچ سے کہیں زیادہ بڑا صحت کا خطرہ ہے۔
زہریلے دھویں کے نقصانات
ماہرین کے مطابق جنگلاتی آگ سے نکلنے والا دھواں صرف آنکھوں میں جلن یا سانس کی تکلیف کا باعث نہیں بنتا، بلکہ اس میں شامل باریک ذرات خون میں شامل ہو کر دمہ، دل کے امراض، پھیپھڑوں کے کینسر، قبل از وقت پیدائش اور حتیٰ کہ اسقاط حمل کا سبب بن سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لاس اینجلس نئی آگ کی لپیٹ میں، 31 ہزار افراد کو انخلا کا حکم
جب آگ صرف درختوں کے بجائے عمارتوں، پلاسٹک اور دیگر کیمیائی مواد کو بھی جلا دیتی ہے تو اس سے پیدا ہونے والا دھواں مزید زہریلا اور خطرناک ہو جاتا ہے۔
مستقبل کی سنگین صورتحال
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو 2050 تک جنگلاتی آگ سے ہونے والی اموات میں 64 سے 73 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے، جو اس خطرے کو امریکا میں آب و ہوا سے پیدا ہونے والا سب سے مہلک خطرہ، یہاں تک کہ شدید گرمی، زرعی نقصانات اور توانائی کے بحران سے بھی زیادہ بنا دے گا۔
یہ بھی پڑھیں: موسیٰ خیل کے جنگلات میں لگی آگ بے قابو، جنگلی حیات شدید خطرات سے دو چار
ماہر فضائی آلودگی ڈاکٹر جوئل کافمین کا کہنا ہے کہ یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ جنگلاتی آگ کا دھواں دیگر آلودگیوں کے مقابلے میں زیادہ زہریلا ہو سکتا ہے۔
ماہرین کی اپیل
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ان نتائج سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فضائی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف فوری اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔ امریکن لنگ ایسوسی ایشن سے وابستہ ڈاکٹر جان بالمز نے کہا کہ یہ تحقیق اس بات کو مزید مضبوط کرتی ہے کہ جنگلاتی آگ اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے درمیان گہرا تعلق ہے۔