بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کی چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد نے کہا ہے کہ سیلاب متاثرین کی مالی مدد کس نظام کے ذریعے کرنی ہے یہ وفاق کا معاملہ ہے اور صوبوں کو اس میں کودنے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بی آئی ایس پی یا وزیراعلیٰ کارڈ: پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سیلاب زدگان کی امداد کے طریقے پر کیوں لڑ رہی ہیں؟
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی یہ خواہش ہے کہ مستحق افراد تک رقوم بروقت پہنچنی چاہییں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک خصوصی اجلاس بھی منعقد کیا ہے کیونکہ یہ وفاق کا معاملہ ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب یہ صوبوں کا مسئلہ ہی نہیں ہے اور وفاق جس کے سربراہ وزیراعظم ہیں کو اس معاملے کا فیصلہ کرنا ہے تو صوبے اس میں کیوں کود رہے ہیں؟
انہوں نے مسلم لیگ کے رہنما رانا ثنا اللہ اور جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سب سے گزارش ہے کہ قومی اہمیت کے پروگرام بی آئی ایس پی کو متنازعہ نہ بنایا جائے۔
مزید پڑھیے: بی آئی ایس پی مستحقین کیلئے خوشخبری، وزیراعظم نے ایک کروڑ ڈیجیٹل والٹس کا اجرا کردیا
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ سیلاب کے نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے تمام صوبوں میں یکساں نظام کی ضرورت ہے اور اس کے لیے بی آئی ایس پی جیسا قومی پروگرام موزوں ہے بالخصوص اس لیے بھی کہ تمام صوبے سماجی مدد کے کاموں کے لیے اسی ادارے کا ڈیٹا استعمال کرتے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بی آئی ایس پی کی تمام رقوم کی ادائیگی بائیو میٹرک کے ذریعے ہوتی ہے اس لیے اس کے گھوسٹ مستحقین نہیں ہو سکتے۔
سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ اس نظام کو بہتر بنانے کے لیے اب رقوم کی فراہمی موبائل بینک اکاؤنٹس کے ذریعے کرنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کے جعلی پیغامات بھیجنے والوں کے خلاف سائبر کرائمز قوانین کے تحت کاروائی کی جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں: مستحق خواتین کب رقم وصول کرنے جائیں؟ چیئرپرسن بی آئی ایس پی روبینہ خالد کی اہم ہدایات
انہوں نے رانا ثنااللہ کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے مزید کہا کہ انہیں علم نہیں ہے کہ جو تجاویز وہ پیش کر رہے تھے ان پر پہلے سے ہی کام ہو رہا ہے اور لوگوں کو ہنرمند بنانے کے علاوہ بی آئی ایس پی کے دیگر کئی پروگرام ملک بھر میں ایک کروڑ لوگوں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔