ماہرینِ آثار قدیمہ نے اسرائیل کے بحیرہ جلیل کے قریب ایک نایاب خزانہ دریافت کیا ہے جس میں تقریباً 1400 سال پرانے سونے کے سکے اور زیورات شامل ہیں۔
یہ ذخیرہ بازنطینی دور سے تعلق رکھتا ہے اور قدیم شہر ہپوس یا سوسیتا کی کھدائی کے دوران برآمد ہوا۔ اس خزانے میں 97 خالص سونے کے سکے اور درجنوں زیورات پائے گئے ہیں، جن میں موتیوں، قیمتی پتھروں اور شیشے سے جڑے ہوئے کان کے جھمکے بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: کوہ سلیمان کے برساتی نالے سے قدیم نوادرات اور سکے دریافت
یونیورسٹی آف حیفا کے ماہرِ آثار قدیمہ ڈاکٹر مائیکل آئزن برگ کے مطابق یہ اس دور کے پانچ سب سے بڑے سونے کے خزانوں میں سے ایک ہے جو اس خطے میں دریافت ہوئے ہیں۔ زیورات اور چھوٹے سکوں کی موجودگی اس کو مزید اہم اور نایاب بناتی ہے۔
برآمد شدہ سکوں پر مختلف بازنطینی حکمرانوں کی مورتیں نقش ہیں۔ ان میں سب سے قدیم سکے شہنشاہ جسٹین اول (518ء تا 527ء) کے دور کے ہیں جبکہ سب سے نئے سکے ہرقل کے ابتدائی دور (610ء تا 613ء) کے ہیں۔ کچھ سکوں پر کپڑے کے نشان بھی ملے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خزانہ کبھی کسی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: راجستھان میں ڈائنوسار سے متعلق پانچویں بڑی دریافت، سائنسی تصدیق کیسے ہوگی؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ خزانے کے دفن کرنے کی وجہ غالباً اُس دور کی جنگی اور سیاسی صورتحال تھی۔ سن 614ء میں ساسانی سلطنت (ایران و وسطی ایشیا) نے بازنطینی فلسطین پر حملہ کیا اور اس دوران مقامی لوگوں نے اپنا سرمایہ چھپانا شروع کر دیا۔ ہپوس بھی انہی عیسائی شہروں میں شامل تھا جہاں لوگ غیر ملکی لشکروں سے بچنے کے لیے اپنی دولت دفن کرتے تھے۔
بعد ازاں یہ خطہ بار بار حملوں اور جنگوں کی لپیٹ میں رہا۔ 614ء میں یروشلم ساسانیوں کے قبضے میں چلا گیا، پھر بازنطینیوں نے 15 برس بعد دوبارہ قبضہ کیا مگر 636ء میں مسلم افواج نے اسے فتح کر لیا۔ 7ویں صدی کے وسط میں ہپوس کا زوال شروع ہوا اور 749ء میں ایک بڑے زلزلے کے بعد یہ شہر مکمل طور پر ویران ہوگیا۔