غزہ کے لیے مجوزہ امن معاہدہ: اہم نکات، مضمرات، اثرات

منگل 30 ستمبر 2025
author image

عامر خاکوانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

غزہ کے سنگین اور لہورنگ  بحران کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے، صدر ٹرمپ نے وہاں امن قائم کرنے کے لیے ایک 20 نکاتی فارمولا پیش کیا ہے۔

اس حوالے سے پہلے انہوں نے اہم مسلمان ممالک سعودی عرب، عرب امارات، مصر، اردن، قطر، ترکیہ وغیرہ کیساتھ پاکستان کو بھی اعتماد میں لیا۔ امریکی حکام یہی تاثر دے رہے ہیں کہ ان مسلمان ممالک نے اس فارمولے کو تسلیم کر لیا ہے اور اب اسے حماس کی اعلیٰ قیادت تک بھی پہنچا دیا ہے جن کا آفیشل ردعمل اگلے ایک آدھ دن میں متوقع ہے۔

امن فارمولا کے اہم نکات

20 نکات ہیں جن کا نچوڑ یہ ہے کہ غزہ اب نان ملٹری علاقہ ہوگا جہاں پر کسی بھی قسم کی مسلح مزاحمت یا گروپوں کی گنجائش نہیں ہوگی، یعنی مائنس حماس غزہ۔

امن منصوبے کے تحت  یہ فارمولا تسلیم کرتے ہی اسرائیلی فوج پیچھے ہٹ کر ایک مخصوص علاقے تک محدود رہے گی، اس دوران اگلے تین دنوں کے اندر حماس اپنے پاس موجود اسرائیلی یرغمالی اور مرنے والوں کی باقیات واپس کر دے گی، جواب میں اسرائیل بھی ڈیڈھ ہزار سے زائد غزہ کے شہری اپنی قید سے رہا کر دے گا۔

تمام قیدیوں کی واپسی کے بعد حماس کے ان لوگوں کے لیے عام معافی ہوگی، جوپرامن رہنے کا وعدہ کریں اور ہتھیار ضائع کر دیں، وہ غزہ میں رہ سکتے ہیں۔ حماس کے جو لوگ یہاں سے نکل کر کسی اور ملک جانا چاہیں، انہیں محفوظ راستہ دیا جائے گا۔

اگلے اہم نکات میں غزہ کی تعمیر نو کا وعدہ بھی شامل ہی جس کے مطابق بنیادی اسٹرکچر (بجلی، پانی، سیوریج) کی بحالی،اسپتالوں اور بیکریوں وغیرہ کی تعمیر، کھلی سڑکوں کے لیے ضروری سامان کے داخلے کی اجازت ہوگی۔

ایک بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ غزہ پر ایک ٹیکنو کریٹک(ماہرین پر مشتمل)غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی کے تحت عبوری حکومت قائم کی جائے گی۔ یہ کمیٹی اہل فلسطینیوں اور عالمی ماہرین پر  مشتمل ہوگی، اس کی نگرانی ایک بورڈ آف پیس کرے گا۔ اس بورڈ آف پیس کے سربراہ امریکی صدر ٹرمپ ہوں گے جبکہ اس میں موجود دیگر سربراہ مملکت کے نام بعد میں اعلان کیے جائیں گے، تاہم سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اس کا حصہ ہوں گے۔ غزہ کی ترقی، تعمیر نو وغیرہ اور دیگر اصلاحات کے لیے یہی بورڈ آف پیس ہی نگرانی کرے گا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کی ترغیب اور کوشش بھی کی جائے گی۔ ایک خصوصی اقتصادی زون کو ترجیحی ٹیرف اور دیگر سہولتوں کے ساتھ قائم کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: کیا آج کا وائٹ ہاؤس درست فیصلہ کر پائے گا؟

ماضی میں صدر ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ غزہ کو خالی کرا کر وہاں پر تفریحی ریزارٹ وغیرہ بنائے جائیں۔ اب صدر ٹرمپ ہی کے امن منصوبے کے مطابق کسی کو غزہ کر پائےشہر چھوڑنے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔ البتہ جو چھوڑنا چاہتے ہیں وہ اس کے لئے آزاد ہوں گے، وہ واپس بھی آ سکتے ہیں۔

حماس کا غزہ میں کسی قسم کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ علاقائی شراکت داروں یعنی پڑوسی ممالک وغیرہ کی طرف بھی ضمانت ہوگی کہ حماس اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے اور غزہ کسی کے لیے فوجی خطرہ نہیں بنے گا۔

ایک اور بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ غزہ میں فوری طور پر ایک انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) بنائی جائے گی جو جانچ شدہ فلسطینی پولیس کو تربیت دے گی۔ یہی فورس مصر اور اردن کی مشاورت سے یہ کرے گی۔ یہ اسرائیل اور مصر کے ساتھ مل کر سرحدوں کی حفاظت بھی کرے گی اور جنگی سامان غزہ میں نہیں داخل ہونے دے گی۔ آئی ایس ایف میں کن کن ممالک کے فوجی شامل ہوں گے، ابھی اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔

اسرائیل غزہ پر قبضہ یا اس کا اپنے ساتھ الحاق نہیں کرے گا۔ جیسے جیسے آئی ایس ایف فعال ہوگی اورفلسطینی پولیس معاملات سنبھالے گی، اسرائیلی فوج بتدریج پیچھے ہٹتی جائے گی اور انتظام آئی ایس ایف کے حوالے کر دے گی۔ اس سب کے بعد ایک بین المذاہب مکالمہ کیا جائے گا جس کے ذریعے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی ذہنیت اور سوچ بدلی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔

امن منصوبے کی راہ میں ممکنہ مسائل

اس امن منصوبے میں واضح طور پر آزاد فلسطینی ریاست کا نام نہیں لیا گیا، مبہم اصطلاحات میں اگرچہ بتدریج اس طرف جانے کا اشارہ ہے،مگر کوئی واضح وعدہ موجود نہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے تو فوری طور پر یہ بات کہہ بھی دی ہے کہ ہم آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کریں گے اور نہ یہ معاہدے میں ہے۔ یہ وہ بات ہے جو ممکنہ رکاوٹ یا مسئلہ بن سکتی ہے کیونکہ بیشتر مسلم ممالک اور کئی مغربی ممالک 2 اسٹیٹ فارمولے کے حق میں ہیں یعنی اسرائیل اور فلسطین کی الگ الگ ریاست۔ صدر ٹرمپ کے امن منصوبے میں اس حوالے سے کوئی واضح اور صاف بات موجود نہیں۔

حماس کو مائنس کرنا۔ اس منصوبے کے مطابق حماس کا غزہ میں کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ وہ یا تو غزہ چھوڑ کر کسی اور ملک چلے جائیں یا پھر ہتھیار پھینک کرپرامن رہ جائیں۔ ان کی خفیہ سرنگوں وغیرہ کو بھی مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ حماس کو غزہ میں دوبارہ سے اسلحہ وغیرہ نہ مل سکے اور نہ اس کا انتظامیہ میں کوئی عمل دخل ہو۔

یہ بھی ایک ممکنہ رکاوٹ ہوسکتی ہے کیونکہ حما س اپنا اثرورسوخ کیوں ختم کرنا چاہے گی؟ دوسرا یہ کہ حماس یہ تو کہہ چکی ہے کہ اگر اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا ہوجائے اور فلسطین کی آزاد ریاست ہو، تب وہ مسلح جدوجہد ترک کر سکتے ہیں، ورنہ نہیں۔ موجودہ صورت میں اسرائیلی فوج موجودہ پوزیشنز سے پیچھے ہٹے گی، مگر غزہ ہی میں موجود رہے گی، وہ بتدریج پیچھے ہٹتی جائے گی، ممکن ہے اس میں ڈیڈھ دو برس کا مزید عرصہ لگ جائے۔

کچھ لوگ یہ بھی سوال اٹھا سکتے ہیں کہ 65،70 ہزار شہادتوں کے بعد بھی غزہ کو کیا ملا؟ اگر آزاد فلسطینی ریاست فوری نہیں بن رہی تو پھر ان قربانیوں کا کیا فائدہ؟ حماس پر بھی دباو آئے گا کہ ان کا ’ایڈونچر‘ یا اپریشن 7 اکتوبر 2023 فلسطینی قوم کو کتنا مہنگا پڑا، وغیرہ وغیرہ۔

بورڈ آف پیس کی سربراہی صدر ٹرمپ کو ملنے اور اس بورڈ میں ٹونی بلیئر وغیرہ کی شمولیت پر بھی اعتراض ہوسکتا ہے۔ یہ بھی کہ مقامی فلسطینی پولیس میں کون کون شامل ہو اور کو ن کون نہ ہوجبکہ جو عبوری حکومت بنائی جائے گی اس کے ارکان پر بھی اعتراضات یا تحفظات کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔

فوائد کیا کیا حاصل ہوسکتے ہیں؟

سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوگا کہ غزہ میں جنگ بندی ہوجائے گی۔ مظلوم فلسطینیوں پر جو بمباری اور گولہ باری ہو رہی تھی، روزانہ متعدد لوگ شہید ہورہے تھے، وہ سلسلہ رک جائے گا۔ خوراک اور دوائیوں وغیرہ کی فراہمی شروع ہوجائے گی۔

غزہ کی تعمیر نو اور بحالی کا وعدہ ہے۔ انفراسٹرکچر کی بحالی اور عمارتوں وغیرہ کی مرمت سے لوگ خیموں کی جگہ اپنے گھروں میں شفٹ ہوسکتے ہیں، اسپتال اور بیکریاں وغیرہ بننے سے صحت اور خوراک وغیرہ کے  مسائل کم ہوجائیں گے۔ غزہ کے لیے اگر ترقیاتی منصوبے، معاشی پلان بنائے جائیں،غیر ملکی سرمایہ کاری آئی، مڈل ایسٹ کے عرب ممالک اپنا پیسہ وہاں خرچ کریں تو ظاہر ہے لوگوں کی حالت سدھرے گی۔ روزگار ملے گا، خوشحالی آئے گی، ہر وقت کی لڑائی، فائرنگ، بمباری وغیرہ سے جان چھوٹ جائے گی۔ رفاہ کراسنگ کھلنے سے فلسطینیوں کا غزہ سے باہر آنا جانا بھی شروع ہوجائے گا، ویسٹ بنک کے فلسطینیوں سے رابطہ بھی ممکن ہوگا۔ شہریوں کے لیے زندگیاں کچھ آسان ہوجائیں گی۔

پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

صدرٹرمپ کی ٹیم کی جانب سیاشارہ کیا گیا ہے کہ اس امن منصوبے کو پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی حمایت حاصل ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی سوشل میڈیا پر ابھی سے شور مچنا شروع ہوگیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے دھڑا دھڑ پوسٹیں لگانا شروع کر دی ہیں۔ کسی نے کہنا شروع کر دیا کہ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا، کسی کے  مطابق ہم ابراہیم اکارڈ میں شامل ہوگئے ہیں۔ بعض نے تو منہ پھاڑ کرحکومت کو اسرائیلی ایجنٹ بھی قرار دے ڈالا۔ ایک صحافی دوست نے پوسٹ جڑ دی کہ تحریک انصاف کو اس پر بھرپور مہم چلانی چاہیے اور جماعت اسلامی، جے یوآئی، ٹی ایل پی وغیرہ کے ساتھ مل کرموجودہ حکومت کے خلاف بڑی احتجاجی عوامی تحریک چلانی چاہیے۔

   عرض یہ ہے کہ اتنا جذباتی نہ ہوں۔ پاکستان نے اسرائیل کو ہرگز تسلیم نہیں کیا۔ ابراہیم اکارڈ کا بھی پاکستان حصہ نہیں بنا ہے۔ ابھی تک صرف اتنا ہوا ہے کہ صدر ٹرمپ کے اس امن منصوبے کی پاکستان نے دیگر مسلم ممالک سمیت حمایت کی ہے۔ وہ بھی اس لئے کہ اس امن منصوبے پر ابھی مزید کام بھی ہوسکتا ہے، مزید تجاویز بھی شامل ہوسکتی ہیں۔ ویسے بھی بی بی سی کے  مطابق ’اگرچہ صدر ٹرمپ نے اسے ایک معاہدے کے طور پر پیش کیا ہے، لیکن  یہ ایک طرح سے مزید مذاکرات کے لیے ایک ڈھانچہ ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ یہ امریکہ فریم ورک اس مسئلے کو پھر سے مذاکرات کی طرف لے جائے گا، اگرچہ جنگ کے خاتمے تک کی صورتحال تک لے جانے کے لیے ابھی کئی ہفتوں کی محنت اور کام درکار ہوگا‘۔

اس لیے پاکستانی حکومت اور فیلڈ مارشل پر الزامات کی بوچھاڑ سے گریز کریں۔ یہ قبل از وقت اور نامناسب ہے۔ پاکستان کا فلسطین کے حوالے سے ایک مستقل اور مضبوط قسم کا موقف رہا ہے۔ ہم نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کی ہے، تاہم اس وقت غزہ میں جنگ کو روکنا اور مظلوم فلسطینیوں کے سروائیول کو یقینی بنانا سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔

براہ کرم اس مسئلے کو سیاست کا حصہ نہ بنائیں

یہ بات کہنا بہت ضروری ہے کہ اتنے اہم، حساس اور سنگین معاملے کو سیاست چمکانے کے لیے ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ فلسطینیوں کا خون مسلسل بہہ رہا ہے، ان کا بے پناہ نقصان ہوگیا ہے۔ ہم لوگ اپنے ٹھنڈے اور پرسکون گھروں میں بیٹھ کر مزے سے گرما گرم چائے کے سپ لیتے ہوئے جذباتی پوسٹیں داغ دیتے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ خدانخواستہ اگر ہمارے گھر میں یہ صورتحال ہو، اوپر سے بم اور گولے برس رہے ہوں، بچوں اور اہل خانہ کی زندگیاں خطرے میں ہوں، اللہ نہ کرے بعض اموات بھی ہوچکی ہوں تو کیا تب ہم اپنے گھر والوں کی سلامتی اور بقا کو ترجیح نہیں دیں گے؟ سب سے پہلا کام تو یہی ہوگا کہ کسی طرح یہ جنگ رکے، مہلت ملے، دوبارہ سے سانس لینے کا موقعہ ملے۔ قسمت اور وقت نے یاوری کی تو بدلہ بھی لے لیا جائے گا۔ پہلے زندہ تو رہا جائے۔ یہ امن  معاہدہ یا کوئی بھی اور معاہدہ جو غزہ کے مکینوں کی زندگی محفوظ بنائے، ان کی مشکلات میں کچھ کمی ہو اور اس سے آزاد فلسطینی ریاست کا راستہ بھی نکلتا ہو تو اس طرف لازمی جانا چاہیے۔

ایک بنیادی سوال

اس منصوبے کے حوالے سے ہر کسی کو اتفاق، اختلاف کا حق حاصل ہے۔ دراصل اس بات کی کوئی بھی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ واقعی دیرپا مستقل امن قائم ہوجائے گا یا فلسطینیوں کو ایک الگ آزاد ملک ملے گا یا اسرائیل مستقبل میں پھر سے حملہ نہیں کرے گا، اس کا گریٹر اسرائیل کے ایجنڈے کا کیا بنے گا، وغیرہ وغیرہ۔

مزید پڑھے: پاکستان سعودی عرب معاہدہ کیا کچھ بدل سکتا ہے؟

یہ تمام سوالات اور تحفظات اپنی جگہ موجود ہیں۔ سوال مگر ایک ہی ہے کہ اس کے علاوہ آپشن کیا بچا ہے؟ عملی طور پر ہمارے پاس یعنی مسلمانوں کے پاس، مظلوم

فلسطینیوں کے پاس کیا آپشن ہے؟

  جن کے خیال میں غزہ میں امن قائم نہیں ہونا چاہیے یا اس فارمولے کے مطابق نہیں تو ان کے نزدیک دوسری آپشن کیا ہے پھر؟ عملی ، پریکٹیکل آپشن؟ اور براہ کرم ہمیں خواب نہ بیچیں۔ مسلم امہ کا لالی پوپ بھی نہ دیں کہ سب نے دیکھ لیا ہے کون سی امہ اور کون سا اسلامک بلاک؟

 سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا ابھی غزہ میں ہونے والے 60،70 ہزار شہادتوں سے دل نہیں بھرا؟ آخر کتنی قربانیاں غزہ والے اور دیں؟ کب تک وہ اپنے معصوم بچے شہید کراتے،جوان اور بوڑھے مٹی میں ملاتے رہیں ؟آخر کہیں تو اس کا اینڈ ہو ۔ کہیں اور کسی طریقے سے تو یہ رکے۔

 اور آخر کون ہے ایسا دانش مند جو اب تک یہ امید رکھتا تھا کہ غزہ میں مسلح مز ا حمت کو باقی رہنے دیا جائے گا؟ کیا واقعی آپ لوگ سمجھتے کہ اسرائیل غزہ پر پھر سے حماس کا کنٹرول ہونے دے گا؟ اس نے نہایت بے رحمی اور سفاکی سے قوت کا استعمال کر کے جنگ جیت لی ہے۔ حماس کے پرخچے اڑا دیے گئے ہیں، حماس کی صف اول ، دوم کی عسکری قوت ختم ہوگئی ، ہزاروں  جنگجو کام آچکے ۔ اب حماس کے پاس کیا مزاحمتی قوت بچی ہے؟ اور کیا اسے برقرار رکھنے کے لیے مزید ہزاروں فلسطینیوں کی قربانی دی جائے گی ؟ویسے تو حماس کو بھی ری گروپ ہونے، اپنی بچی کھچی قوت سنبھالنے کے لیے مہلت اور وقت درکار ہے۔

خدارا غزہ والوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھیں۔ میرے گھر پر خدانخواستہ بمباری اور گولہ باری ہو رہی ہو،میرے اہل خانہ، بچے اس کی زد میں ہوں، اللہ نہ کرے شہادتیں ہو رہی ہوں تو کیا میں لمبے چوڑے مذاکرات کروں گا؟ کیا میری، آپ کی، ہم سب کی یہ خواہش نہیں ہو گی کہ کسی طرح یہ برستی آگ تو رکے۔ سروائیول تو ممکن ہو۔ زندہ بچ گئے تو وقت آنے پر بدلہ بھی لے لیں گے۔ ابھی تو اس بمباری کو روکا جائے ورنہ کچھ بھی نہیں بچے گا۔ کیا یہ فطری ردعمل نہیں ہوگا؟

سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر یہ امن فارمولا ناکام ہو جاتا ہے پھر کیا ہو گا؟

   کیا اگلے چھ ماہ، ایک سال مزید غزہ میں لہو بہتا رہے، بھوک کا عفریت رقص کرتا رہے؟ کوئی ہے جو اگلے چھ ماہ، ایک سال تک بھی ان مظلوموں کی مدد کر کے انہیں بچائے گا؟ کوئی ہے؟ جواب نفی میں ملے گا۔

مجھے غزہ والوں کی مظلومیت میں، ان کے برحق ہونے میں کوئی شک نہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ جب مسلم دنیا میں سے کوئی ان کے ساتھ کھڑا ہو کر جہدوجہد کر رہا ہے ؟ پورا مغرب، چین اور روس جیسی سپر پاورز بھی ظالم ہاتھ نہیں پکڑ رہیں۔ حماس کا واحد حمایتی ایران کمزور ہو چکا، حز ب اللہ کی کمر ٹوٹ چکی ہے، حوثی صرف پٹاخے چھوڑنے جتنے رہ گئے ہیں۔

 اب ایسے میں مزید تباہی،مزید ہلاکتوں کو روکا جائے۔ وقت لیا جائے۔ مہلت ملے۔ قسمت نے یاوری کی تو پھر کبھی دوبارہ طاقت حاصل کی جاسکتی ہے۔

 اس وقت کسی نہ کسی طرح یہ سب رکے۔

  البتہ امن منصوبے میں 2 اسٹیٹ فارمولے پر اصرار کرنا چاہیے ۔ اس بیس نکاتی فارمولے میں ترامیم تجویز ہو سکتی ہیں، مگر وہ عملی ہونی چاہئیں، ایسی جنہیں منوایا جاسکے۔ خوابوں کی دنیا سے باہر آ کر مڈل ایسٹ کی خوفناک، سفاک، سرد، ظالمانہ حقیقتوں کو دیکھ کر رائے دیں۔

مزید پڑھیں: یہ وہ لاہور نہیں

 اور پلیز اس مسئلے کو سیاسی ایشو نہ بنائیں۔ اگر تحریک انصاف اقتدار میں ہوتی تو وہ بھی اس امن فارمولے کے حق میں جاتی ۔

 سوچ سمجھ کر اور غز ہ کے دکھ اور المیے کو اپنے گھر کا المیہ سمجھ کر ، دل پر ہاتھ رکھ کر رائے دیں ۔ مخالفت برائے مخالفت نہ کریں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

انتھروپک کا اپنے جدید ماڈل کلاڈ سونیٹ 4.5 جاری، دیگر اے آئی ماڈلز کو چیلنج

غزہ امن منصوبے پر پی ٹی آئی نے ردعمل دے دیا، فلسطین کی حمایت جاری رکھنے کا عزم

گھریلو صارفین کے لیے خوشخبری، اوگرا نے ایل پی جی کی قیمتوں میں کمی کردی

کراچی میں ایک گھنٹے کی بارش نے سب کچھ ڈبو کر رکھ دیا، انتظامیہ غائب

پی ٹی آئی کے پشاور جلسے میں بدانتظامی کی وجہ جاننے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم

ویڈیو

’صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں پاکستان نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے‘

ٹرینوں کا اوپن آکشن: نجکاری یا تجارتی حکمت عملی؟

نمک منڈی میں چپلی کباب نے بھی جگہ بنالی

کالم / تجزیہ

کھیل سے جنگ

یہ حارث رؤف کس کا وژن ہیں؟

کرکٹ کی بہترین کتاب کیسے شائع ہوئی؟