بین الاقوامی تعلقات میں کسی ریاستی رہنما کا معافی مانگنا محض ایک اخلاقی عمل نہیں ہوتا بلکہ یہ سفارت کاری اور طاقت کے توازن کا عکاس سمجھا جاتا ہے۔
اسرائیل کے طویل عرصہ تک وزیرِاعظم رہنے والے بنیامین نیتن یاہو کی سیاست میں معافی کے چند اہم مواقع دیکھنے کو ملتے ہیں جو عالمی سطح پر نمایاں سفارتی بحرانوں کے بعد سامنے آئے۔ یہ معافیاں تعداد میں کم ضرور ہیں لیکن ان کے اثرات علاقائی سیاست اور عالمی تعلقات پر بہت گہرے ثابت ہوئے۔
ستمبر 1997 میں اس وقت بحران کھڑا ہوا جب اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے اردن کے دارالحکومت عَمَّان میں حماس کے رہنما خالد مشعل کو زہر دینے کی ناکام کوشش کی۔ اس واقعے نے اردن اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو شدید خطرے میں ڈال دیا۔
یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ پلان، سعودی و فرانسیسی سفارتکاری، دنیا کی یکجہتی، فلسطین کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
شاہ حسین نے سخت موقف اختیار کیا اور اسرائیل پر شدید دباؤ ڈالا۔ بالآخر نیتن یاہو نے ذاتی طور پر شاہ حسین سے معذرت کی اور زہر کا تریاق فراہم کیا جس کے نتیجے میں مشعل کی جان بچائی گئی اور تعلقات مکمل ٹوٹنے سے محفوظ رہے۔ بی بی سی اور نیو یارک ٹائمز کے مطابق اس معافی کے ساتھ ہی اسرائیل نے شیخ احمد یاسین اور دیگر فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کیا۔
اسی طرح مئی 2010 میں آزادی غزہ بیڑا یا مرمرہ واقعہ پیش آیا جس میں 9 ترک کارکن اسرائیلی کمانڈوز کی کارروائی میں مارے گئے۔ اس پر ترکی اور اسرائیل کے تعلقات تقریباً منقطع ہوگئے۔ 3 برس کی کشیدگی کے بعد مارچ 2013 میں امریکی صدر باراک اوباما کی ثالثی سے نیتن یاہو نے ترک صدر رجب طیب اردوان سے ٹیلی فون پر معافی مانگی اور جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا۔
گارڈین اور بی بی سی کے مطابق اسرائیل نے معاوضہ دینے پر بھی رضامندی ظاہر کی جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کی راہ نکلی۔
ایک اور بحران جولائی 2017 میں سامنے آیا جب اسرائیلی سفارتخانے کے محافظ نے عَمَّان میں 2 اردنی شہریوں کو فائرنگ کر کے قتل کیا۔ یہ واقعہ اردنی عوام اور حکومت دونوں کے لیے ناقابلِ قبول تھا اور طویل تناؤ پیدا ہوا۔ بالآخر جنوری 2018 میں اسرائیل نے اردن کو باضابطہ معافی پیش کی جسے نیتن یاہو کی منظوری حاصل تھی۔ رائٹرز اور الجزیرہ کے مطابق اس معافی میں متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ اور قانونی کارروائی کی یقین دہانی بھی شامل تھی، جس سے بحران کا خاتمہ ممکن ہوا۔
یہ بھی پڑھیے: سعودی پاکستان دفاعی معاہدے کی عالمی میڈیا میں نمایاں کوریج
سب سے تازہ واقعہ ستمبر 2025 کا ہے جب اسرائیل نے دوحہ پر فضائی حملہ کیا جس سے ایک قطری شہری جاں بحق اور ریاستی خودمختاری کی خلاف ورزی ہوئی۔ اس پر قطر نے سخت ردعمل دیا اور وائٹ ہاؤس نے فوری مداخلت کی۔
رائٹرز اور الجزیرہ کے مطابق ایک سہ فریقی کال کے دوران نیتن یاہو نے امیر قطر تمیم بن حمد سے معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ ایسا واقعہ دوبارہ پیش نہیں آئے گا۔ یہ واقعہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ خلیج میں اسرائیل کے تعلقات کس قدر نازک ہیں اور کسی بھی غلطی پر اسے فوری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔
ان چاروں معافیوں کے تجزیے سے واضح ہوتا ہے کہ نیتن یاہو کی معافیاں اخلاقی بنیادوں پر نہیں بلکہ سفارتی اور سیاسی دباؤ کے نتیجے میں سامنے آئیں۔ 1997 اور 2018 میں اردن کے ساتھ تعلقات کو مکمل ٹوٹنے سے بچانے کے لیے، 2013 میں امریکا کے دباؤ اور ثالثی کے تحت، اور 2025 میں واشنگٹن کی براہِ راست مداخلت کے بعد یہ اقدامات کیے گئے۔ دوسرے الفاظ میں یہ معافیاں کرائسس مینجمنٹ کا آلہ ثابت ہوئیں، نہ کہ اصولی اعترافِ غلطی۔
یہ بھی پڑھیے: پاک سعودی دفاعی معاہدہ دیگر اسلامی ممالک تک وسعت پا رہا ہے؟
اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ معافیاں اسرائیل کی پالیسی میں کسی حقیقی اخلاقی بیداری کی نمائندگی کرتی ہیں یا محض وقتی فائدے کے لیے کی جانے والی سیاسی مجبوری ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے کبھی بھی فلسطینی عوام، جن پر اس کی پالیسیوں نے براہِ راست ظلم ڈھایا ہے، ان سے کھلی معذرت نہیں کی۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف اسرائیل کی گری ہوئی اخلاقی حیثیت کو مزید گراتا ہے بلکہ اسے دنیا کے سامنے ایک ایسی غاصبانہ اکائی کے طور پر پیش کرتا ہے جو ظلم کے بعد دباؤ میں آکر جزوی معافی مانگتی ہے مگر اپنی جارحانہ پالیسیوں پر کبھی غور نہیں کرتی۔
دوسرے لفظوں میں، یہ معافیاں وقتی سہارا تو دے سکتی ہیں لیکن اسرائیل کے غلیظ کردار پر لگے بد نما دھبوں کو کبھی نہیں دھو سکیں گی۔