امریکی حکومت شٹ ڈاؤن: اس کا مطلب اور وجہ کیا ہے؟

بدھ 1 اکتوبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امریکا میں حکومت ایک بار پھر شٹ ڈاؤن (بند) ہو گئی ہے کیونکہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹس وفاقی فنڈنگ پر معاہدہ کرنے میں ناکام رہے۔

یہ بھی پڑھیں: پوپ لیو کی صدر ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں پر تنقید، تارکین وطن سے سلوک کو غیرانسانی قرار دیدیا

یہ شٹ ڈاؤن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں تقریباً 7 سال بعد ایک بار پھر رونما ہوا ہے۔

شٹ ڈاؤن منگل 30 ستمبر کو رات 11:59 بجے شروع ہوا جب دونوں جماعتوں کے رہنما وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے باوجود کسی معاہدے تک نہیں پہنچ سکے۔

اگرچہ ریپبلکن جماعت کو کانگریس کے دونوں ایوانوں اور صدارت پر کنٹرول حاصل ہے لیکن وفاقی فنڈنگ کا بل منظور کرنے کے لیے 60 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے جو انہیں حاصل نہ ہو سکے۔

حکومت کا شٹ ڈاؤن کیا ہوتا ہے؟

سرکاری نظام عارضی طور پر معطل ہوجاتا ہے یا امریکی وفاقی حکومت بند ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ حکومت کے تمام ’غیر ضروری‘ شعبے عارضی طور پر کام بند کر دیتے ہیں۔

مزید پڑھیے: صدر ٹرمپ کی فوجی قیادت کو برطرفی کی دھمکی، امریکی شہروں کو ’فوجی تربیت گاہ‘ بنانے کا اعلان

یہ شٹ ڈاؤن سماجی تحفظ (سوشل سیکیورٹی) سے لے کر ہوائی سفر، اور قومی پارکس کی رسائی تک ہر چیز کو متاثر کر سکتا ہے۔

وفاقی ادارے کانگریس سے منظور شدہ فنڈز پر انحصار کرتے ہیں تاکہ صدر مالی سال کے لیے بجٹ قانون پر دستخط کر سکیں۔

اگر سیاسی اختلافات کی وجہ سے فنڈنگ کی منظوری نہیں ہو پاتی تو یہ ادارے بند ہو جاتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ملازمین کو کام پر نہیں بلایا جاتا اور انہیں تنخواہ بھی نہیں دی جاتی۔

کون سے ادارے کام کرتے رہیں گے؟

چند اہم اور ناگزیر ادارے کام جاری رکھیں گے جن میں ایف بی آئی، سی آئی اے، ایئر ٹریفک کنٹرول، نیشنل گارڈ اور بارڈر سیکیورٹی شامل ہیں۔

سوشل سیکیورٹی کی ادائیگیاں جاری رہیں گی، سابق فوجیوں کے لیے صحت کی سہولیات، میڈیکیئر پروگرام اور یو ایس پوسٹل سروس بھی معمول کے مطابق کام کرے گی۔

ریاستوں (صوبوں) میں کیا ہوگا؟

وفاقی حکومت کے بند ہونے (شٹ ڈاؤن) کا ریاستی حکومتوں پر براہ راست اثر نہیں پڑتا۔

مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ نے مزید 2 شہروں میں قوت استعمال کرنے کی اجازت کیساتھ فوج تعینات کردی

امریکا کی ہر ریاست (صوبہ) اپنی الگ حکومت، بجٹ اور انتظامی ڈھانچے کے تحت کام کرتی ہے اس لیے اسکول، پولیس، عدالتیں اور دیگر ریاستی ادارے معمول کے مطابق چلتے رہتے ہیں۔

البتہ کچھ ریاستی پروگرامز جو وفاقی فنڈنگ پر انحصار کرتے ہیں جیسے میڈیک ایڈ یا کم آمدنی والے افراد کے لیے فوڈ اسٹامپس، ان میں وقتی خلل یا تاخیر پیدا ہو سکتی ہے۔ تاہم عمومی طور پر روزمرہ ریاستی سرگرمیاں متاثر نہیں ہوتیں۔

میڈک ایڈ

میڈک ایڈ امریکا کا ایک سرکاری صحت کا پروگرام ہے جو کم آمدنی والے افراد، خاندانوں، معذور افراد اور دیگر ضرورت مند طبقات کو مفت یا کم لاگت میں طبی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ یہ پروگرام وفاقی اور ریاستی حکومتوں کی مشترکہ فنڈنگ سے چلتا ہے اور ہر ریاست اسے اپنے طریقے سے نافذ کرتی ہے۔ اس کے تحت اسپتال میں داخلے، ڈاکٹر کے معائنے، زچگی، دواؤں اور طویل مدتی نگہداشت جیسی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

میڈی کیئر

دوسری طرف میڈی کیئر ایک علیحدہ صحت کا پروگرام ہے جو خاص طور پر 65 سال یا اس سے زائد عمر کے بزرگ شہریوں اور بعض مخصوص معذور افراد کے لیے ہے۔

یہ پروگرام وفاقی حکومت کی جانب سے مکمل طور پر چلایا جاتا ہے اور اس کے ذریعے بزرگوں کو بنیادی طبی سہولیات جیسے ہسپتال میں داخلہ، ڈاکٹر کی فیس اور ادویات کی خریداری میں مدد فراہم کی جاتی ہے۔

ٹرمپ دور میں ہونے والے شٹ ڈاؤن

حالیہ شٹ ڈاؤن ٹرمپ کی صدارت کے دوران تیسرا شٹ ڈاؤن ہے۔ اس سے قبل 2018–2019 میں ایک طویل شٹ ڈاؤن ہوا تھا جو 35 دن تک جاری رہا جو امریکا کی تاریخ کا سب سے طویل شٹ ڈاؤن تھا۔

صدر ٹرمپ سے پہلے سنہ 2013 میں صدر اوباما کے دور میں ایک 16 دن کا شٹ ڈاؤن ہوا تھا جو Affordable Care Act (ACA) کے حوالے سے سیاسی اختلافات کی وجہ سے تھا۔ اس دوران تقریباً ساڑھے 8 لاکھ وفاقی ملازمین کو چھٹی پر بھیجا گیا تھا۔

ٹرمپ دور کا پہلا شٹ ڈاؤن جنوری 2018 میں تھا جو 3 دن تک چلا۔ دوسرا اور طویل ترین شٹ ڈاؤن دسمبر 2018 سے جنوری 2019 تک تقریباً 35 دن جاری رہا جو امریکی تاریخ کا سب سے طویل شٹ ڈاؤن تھا۔ اس طرح ٹرمپ دور میں ہونے والا یہ تیسرا شٹ ڈاؤن ہے۔

یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ کا غزہ کے لیے امن منصوبہ، حماس نے ترمیم کا مطالبہ کردیا

ڈونلڈ ٹرمپ کے گزشتہ دور میں امریکی تاریخ کا سب سے طویل شٹ ڈاؤن 22 دسمبر 2018 کو شروع ہوا تھا جو 25 جنوری 2019 تک جاری رہا تھا۔

یہ شٹ ڈاؤن مجموعی طور پر 35 دن تک چلا جس نے لاکھوں سرکاری ملازمین اور متعدد وفاقی اداروں کو بری طرح متاثر کیا۔

وہ اس وقت پیش آیا جب صدر ٹرمپ نے میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے بجٹ میں 5 ارب ڈالر کی منظوری کا مطالبہ کیا جس پر ڈیموکریٹس نے مخالفت کی۔ فنڈنگ پر سیاسی تعطل کے باعث کانگریس بجٹ منظور نہ کر سکی، جس کے نتیجے میں وفاقی حکومت کے کئی محکمے بند ہو گئے۔ اس دوران تقریباً 8 لاکھ وفاقی ملازمین کو تنخواہ کے بغیر چھٹی پر بھیج دیا گیا یا بغیر تنخواہ کے کام پر بلایا گیا۔  بہت سے عوامی خدمات جیسے قومی پارکس، امیگریشن پروسیسنگ، ایئرپورٹ سیکیورٹی اور عدالتوں کے کام میں بھی خلل پیدا ہوا۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ معاشی تعاون کی یقین دہانی کرائی، وزیراعظم شہباز شریف کی لندن میں پریس کانفرنس

بالآخر 35 دن بعد ایک عبوری معاہدے کے تحت حکومت کو عارضی طور پر دوبارہ کھولا گیا لیکن دیوار کے لیے مطلوبہ فنڈنگ منظور نہیں کی گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

اسنیپ چیٹ ’فری لنچ‘ ختم: یادگار تصاویر، ویڈیوز نہیں گنوانی تو پیسے دیں!

قطر پر حملہ ہوا تو امریکا فوجی مداخلت کرےگا: ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کردیے

فیصلہ سازی کور کمیٹی کرتی ہے، علیمہ خان یا گنڈاپور کا سیاسی کردار نہیں، لطیف کھوسہ

پی ٹی آئی دو دھڑوں میں تقسیم، استعفے آنا شروع ہوگئے

سیارہ زحل پر زندگی کے مزید آثار مل گئے، سائنسدانوں کے نزدیک اہم ترین پیشرفت

ویڈیو

پی ٹی آئی دو دھڑوں میں تقسیم، استعفے آنا شروع ہوگئے

مسلم سربراہان کے اصرار پر غزہ مسئلے کا حل نکلا، پورے معاملے میں سعودی عرب اور پاکستان کا کردار کلیدی تھا، حافظ طاہر اشرفی

قلم سے لکھنے کا کھویا ہوا فن، کیا ہم قلم سے لکھنا بھول گئے ہیں؟

کالم / تجزیہ

افغانستان میں انٹرنیٹ کی بندش، پاکستان کے لیے موقع، افغانوں کے لیے مصیبت

ٹرمپ امن فارمولا : کون کہاں کھڑا ہے؟

غزہ کے لیے مجوزہ امن معاہدہ: اہم نکات، مضمرات، اثرات