12 جولائی 1932 کو لاہور میں پیدا ہونے والے شعیب ہاشمی 15 مئی 2023 کے دن لاہور میں طویل علالت کے بعد وفات پا گئے۔ وہ ایسے خوش قسمت انسان تھے جن کی کئی شناختیں تھیں۔ وہ نامور شاعر فیض احمد فیض کے داماد تھے لیکن اس بڑھ کر وہ استاد، ڈائریکٹر، ڈرامہ نگار اور ادا کار تھے۔ انھوں نے ایسے ٹی وی شوز آج سے پچاس سال پہلے بنائے جن کی چھاپ آج بھی ٹی وی انڈسٹری پر نظر آتی ہے۔ ان کے تیارکردہ فن کاروں کا شمار ٹی وی کی صنعت کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ شعیب ہاشمی نے گورنمنٹ کالج لاہور سے اکنامکس میں ماسٹرز کیا۔ بعد میں لندن اسکول آف اکنامکس سے اقتصادیات میں ایم ایس سی کی اور رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس لندن سے ڈرامہ پڑھا۔
وہ ایک طویل عرصہ گورنمنٹ کال لاہور میں اکنامکس پڑھاتے رہے۔ گورنمنٹ کالج میں اسٹیج کی روایت بہت مضبوط رہی ہے۔ زمانہ طالب علمی اور پروفیسری کے زمانے میں وہ خود بھی اداکاری کرتے رہے۔ گورنمنٹ کالج ڈرامیٹک کلب کے سربراہ بھی رہے۔
پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے سابق سربراہ، سینئر اداکار اور ڈائریکٹر نعیم طاہر نے بتایا کہ شعیب جی سی میں میرے جونئیر تھے۔ مجھ سے ان کی دوستی تھی، انھوں نے میرے بہت سے ڈراموں میں کام کیا۔ وہ ایک اچھے فن کار تھے۔ اچھی آواز کے مالک اور عمدہ پیش کار تھے۔ الحمراء کے سٹیج پر انہیں میں نے ہی متعارف کروایا اور میرے ہی ڈراموں کے توسط سے وہ سلیمہ سے متعارف ہوئے۔
سلیمہ ہاشمی نے اپنی اور شعیب ہاشمی کی شادی کے حوالے سے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ” میں نے جب شعیب کے حوالے سے غور کیا تو مجھے لگا کہ اچھا لڑکا ہے، اس سے ضرور شادی کرنی چاہیے۔ میں اور شعیب لندن اور لاہور میں کئی دفعہ مل چُکے تھے۔ میری شادی میری دادی کی منظوری سے ہوئی، ویسے میری دادی کو بالکل علم نہیں تھا کہ ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ ہماری شادی کراچی میں 1965 ء کے وسط میں ہوئی چونکہ میرے والدین ان دنوں وہیں رہتے تھے۔”
شادی کے بعد سلیمہ اپنے شوہر کے ساتھ ان کے گھر ماڈل ٹاؤن لاہور منتقل ہو گئیں۔ آج تک بھی وہ اسی گھر میں مقیم ہیں۔ سلیمہ ہاشمی نے مزید بتایا کہ ” شادی کے کچھ ہی عرصے بعد 65ء کی جنگ شروع ہو گئی۔ لاہور میں کرفیو لگا ہوا تھا، سارا گلبرگ خالی ہو چکا تھا۔ اکثر لوگ جان بچانے کی خاطر ادھر اُدھر ہوچکے تھے لیکن ہم نے اپنا گھر نہیں چھوڑا۔ شعیب نے ایک کرفیو پاس بنوا لیا۔ وہ ٹی وی پر “پرکھ “کے نام سے ایک پروگرام کرتے تھے جب کہ میں “ببلو اور نازلی” کے نام سے پُتلی تماشا کرتی تھی۔ 1966ء سے 1969ء میں ہم دونوں میاں بیوی لندن رہے۔ شعیب لندن سکول آف اکنامکس میں پڑھ رہے تھے۔ جب کہ میں بچوں کے ایک سکول میں آرٹس پڑھاتی رہی۔ شعیب اپنے ترقی پسند خیالات کی وجہ سے مزید چار سو لوگوں کے ساتھ کوٹ لکھ پت جیل میں بھی رہے۔ اتفاق سے ان دنوں بھی جیل کا جیلر وہی تھا جو فیض صاحب کی قید کے دوران بھی جیلر تھا۔”
سلیمہ ہاشمی نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی بتایا کہ ان کا اصل نام سلیمہ سلطانہ تھا۔ شادی کے بعد انھوں نے اپنے نام کے ساتھ ہاشمی لگا لیا۔ یاد رہے کہ سلیمہ کی بہن کا نام منیزہ گل تھا۔ دونوں بہنوں کی شادی دو بھائیوں حمیر اور شعیب کے ساتھ ہوئی تو دونوں نے ہاشمی اپنے ناموں کا حصہ بنا لیا۔
شعیب ہاشمی نے اپنے ایک انٹرویو میں کیریئر اور زندگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “جب پاکستان میں پہلی بار جمہوری طور پر منتخب حکومت آئی تو اسلم اظہر ٹی وی کے سربراہ مقرر ہوئے۔ انھوں نے مجھے کہا کہ ” اگر آپ کو مکمل آزادی دی جائے تو آپ ٹی وی کے لئے کیا کرنا چاہو گے؟” تو میں نے کہا کہ میں بچوں کا پروگرام کرنا پسند کروں گا۔ یوں ہم نے ” اکڑ بکڑ” شروع کیا۔ اس کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ ہم بالکل ترو تازہ اور سادہ سےتھے۔ جہاں کہیں، کسی کا پتا چلا کہ وہ کچھ کر سکتا ہے تو اسے ہم نے اپنے ساتھ لے لیا۔ اُن میں سے کئی لوگوں نے دہائیوں تک ٹی وی سکرین پر راج کیا۔ سلمان شاہد،عرفان کھوسٹ، ارشد محمود، ثمینہ احمد، فاروق قیصر، ہم سب نے ایک ساتھ اکٹھے کام شروع کیا۔ ایک دن ارشد نے این سی اے کی ایک لڑکی کے ساتھ پرفارم کرنے کی بات کی تو میں نے کہا لے آؤ، جانتے ہیں وہ کون تھی؟ وہ منفرد آواز کی مالک نیّرہ نور تھیں۔
اپنی شریکِ حیات سلیمہ ہاشمی کے بارے میں انھوں نے کہا کہ “میں بہت خوش قسمت ہوں کہ مجھے سلیمہ جیسی بیوی ملی۔ وہ پینٹ کرتی اور میں فریم۔ کوئی پینٹنگ فریم کے بغیر اچھی نہیں لگتی۔”
سلیمہ ہاشمی این سی اے لاہور کی پرنسپل اور بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی لاہور کے شعبہ آرٹس کی ڈین بھی رہیں۔
نامور موسیقار ارشد محمود نے شعیب ہاشمی کے حوالے سے اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے تو وہ گُرو تھے۔ ہاشمی صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت اور انٹیلیکچوئل تھے۔ وہ رائٹر، ڈائریکٹر اور اعلیٰ پائے کے فن کار تھے۔ کئی سال دی نیوز میں ہفتہ وار کالم بھی لکھتے رہے۔ وہ مردم شناس جوہری اور نوجوانوں پر یقین رکھنے والے انسان تھے۔ گورنمنٹ کالج میں وہ ہمیں بی اے کے پہلے سال اکنامکس پڑھاتے تھے۔ اس زمانے میں ایسے ہی گٹار پکڑ کر کشور کے گانے وانے گایا کرتے تھے۔ ایک دن مجھے ڈانٹ کر کہنے لگے “ایسے ہی ٹامک ٹوئیاں مارتے رہو گے یا کوئی کام بھی کرو گے؟”
میں نے کہا ” جی کروں گا کام”۔ کہنے لگے کل گھر آ جاؤ
وہاں فاروق قیصر گیت لکھ کر لے آیا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے دُھن بنا دی اور پھر چل سو چل، 1972ء سے 1976ء تک چار سال ان کے ساتھ بہت کام کیا۔ فیض صاحب، میرا جی، ناصر کاظمی، فاروق قیصر سب کے کلام کی دھنیں میں نے بنائیں۔ آج بھی دھن بنانے لگتا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں “لفط کی طرف غور کرو، اس کے مطابق دھن بناؤ تاکہ اس کا ابلاغ ہو۔”
“انھوں نے ہمیں کام کرنے کا نُسخہ بنا کر دیا۔ ہوسکتا ہے مجھے ان سے زیادہ میوزک کا علم ہو لیکن یہ کام کرنا کیسے ہے یہ انھوں نے ہی بتایا۔”
معروف اداکار عثمان پیرزادہ نے کہا کہ شعیب ہاشمی میرے استاد تھے، وہ اکنامکس پڑھاتے تھے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے انہیں اپنے بڑے بھائی سلمان کے ایک انگریزی کھیل میں دیکھا۔ وہ ایک وجہیہ شخصیت کے مالک تھے۔ اکنامکس کے ساتھ ساتھ وہ ہمیں دنیا کے بارے میں اور بھی بہت کچھ بتاتے تھے۔ وہ پچھلے کئی برسوں سے بیمار تھے لیکن میں انھیں دیکھنے نہیں گیا چونکہ میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ایک ایسے متحرک اور نفیس انسان کو فالج زدہ حالت میں دیکھوں۔
سینئر اداکار عرفان کھوسٹ نے رُندھی ہوئی آواز میں کہا کہ وہ میرے بڑے بھائی تھے، انھوں نے ہمیں پیار بھی کیا اور ڈانٹ کر سکھایا بھی، اب مجھے ڈانٹنے والا کوئی نہیں رہا۔ ان کے ساتھ “اکڑ بکڑ ” سے کام شروع کیا اور پھر کرتے ہی رہے۔
سینئر اداکارہ، دانشور اور شاعرہ نوید شہزاد نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ” ہاشمی صاحب میرے چچا زاد بھائی پرویز رحیم کے ہم جماعت تھے اور میرے بڑے بھائی کے جی سی میں استاد تھے۔ میں گیارہ بارہ سال کی تھی جب ان سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ وہ صفاں والا چوک کے رہنے والے پکے لاہوریے تھے۔ ان کا ایک احسان یہ بھی ہے کہ انھوں نے میرا لاہور سے تعارف کروایا۔ وہ پاکستان کی ٹی وی انڈسٹری میں طنز و مزاح کے بانی ہیں۔ آج کے اکثر ٹی وی شوز ان کے پروگراموں کی کاپی ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے “سچ گپ” اور دیگر شوز میں بہت سے کردار ادا کیے۔
نامور اداکارہ ثمینہ احمد نے کہا کہ اس وقت ان کے لیے بات کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ وہ عزیز دوست، فیملی ممبر کی طرح اور رہنماء تھے جں سے ہم سیکھتے تھے۔
دانشور، شاعر، استاد، ڈرامہ نگار اور ڈائریکٹر سرمد صہبائی کا نے بتایا کہ ضیا محی الدین اور اسلم اظہر، ہاشمی صاحب کے سینئر تھے۔ وہ جی سی، آرٹس کونسل میں ہونے والے سٹیج میں بھی حصہ لیتے اور ہدایات بھی دیتے تھے۔ میرے لکھے ہوئے کھیل” ڈارک روم” کی ہدایات بھی انھوں نے دیں۔ اس ڈرامے نے کینئرڈ کالج میں انعام جیت لیا ۔ ہاشمی صاحب اپنے وقت کے سب سے اعلیٰ ڈائریکٹر تھے۔ وہ ہنس مکھ کُھلے ڈلے اور اکڑ سے پاک آدمی تھے۔ لوگوں اور اپنے سے کم عمر لوگوں میں بھی گُھل مل جاتے تھے۔
معروف اداکار اور عہد ساز کامیڈین سہیل احمد (عزیزی ) نے بھرپور انداز میں شعیب ہاشمی کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ” شعیب صاحب فیض احمد فیض کا داماد ہونے کی وجہ سے ایک بوجھ تلے دب گئے ورنہ وہ اپنے کام کے فیض تھے، فیض صاحب تو فیض تھے لیکن جب بھی شعیب صاحب کا تذکرہ ہوتا ہم یہی کہتے ہیں کہ فیض صاحب کے داماد۔ ظاہر ہے فیض بہت بڑی ہستی کا نام ہے لیکن یوں ہاشمی صاحب کا نام اور کام دب کے رہ گئے، گو کہ خود شعیب صاحب نے کبھی اس بات کا گلہ یا اظہار نہیں کیا بلکہ وہ تو اس نسبت پر فخر ہی کرتے تھے۔
اصل میں یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے پچاس سال پہلے ٹی وی اور سٹیج پر بین الا قوامی سطح کا کام کیا۔ ان کے شاگرد ہمارے استاد ہیں۔ ” اکڑ بکڑ” ” سچ گپ” اور “ٹال مٹول” کی شکل میں ان کا کیا گیا کام آج بھی کسی نہ کسی شکل میں چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے پروگرام “حسبِ حال” سمیت ایسے سارے شوز ویسے تو نظام دین کے ریڈیو پروگرام “جمہور دی آواز” یا ” سوہنی دھرتی” سے ہی نکلے ہیں مگر آج تمام ایسے ٹی وی شوز ” اکڑ بکڑ” جیسے پروگراموں سے ملتے جُلتے” گیٹ اپ” سے ترتیب پاتے ہیں۔ شعیب صاحب جیسی “بلیک کامیڈی” کون کر سکتا ہے؟ وہ اپنی وضع کے واحد آدمی تھے۔ وہ ہمارے شعبے کے دادا، اُستاد تھے۔ مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل نہیں ہوئی مگر عرفان کھوسٹ صاحب کے توسط سے اجازت لے کر ان کے کھیل” قصور اپنا اپنا” کی ریہرسلز دیکھیں تو علم ہوا بڑے لوگ کیسے کام کرتے ہیں۔
سلیمہ اور شعیب ہاشمی کے دو بچے ہیں جن میں سے یاسر لمز لاہور میں سائیکالوجی پڑھاتے ہیں جب کہ بیٹی میرا نے باہر سےفلم میکنگ کی تعلیم حاصل کی، آج کل وہ اپنے بچوں اور میاں کے ساتھ لندن میں مقیم ہیں۔1995ء میں شعیب ہاشمی کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ برائے حُسنِ کارکردگی بھی دیا گیا۔
شعیب ہاشمی کے رُخصت ہونے سے اِک عہد کا خاتمہ ہوا ہے۔ بلا شُبہ شعیب ہاشمی جیسے لوگ ہی عہد ساز ہوتے ہیں، ایسے لوگ مر کر بھی لوگوں کے دلوں میں تا دیر زندہ رہتے ہیں۔