صدر مملکت آصف علی زرداری نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا۔ ذرائع کے مطابق گفتگو میں سندھ اور پنجاب حکومتوں کے درمیان حالیہ کشیدگی کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
صدر آصف زرداری نے وزیر داخلہ کو فوری طور پر کراچی طلب کر لیا تاکہ صورتحال کا جائزہ لے کر تناؤ کم کرنے کے لیے اقدامات پر مشاورت کی جا سکے۔ ذرائع کے مطابق صدر زرداری نے وفاقی اور صوبائی سطح پر معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے پر زور دیا۔
مزید پڑھیں: پنجاب اور سندھ حکومت کا سیلاب متاثرین کی امداد پر مناظرے کا چیلنج، کب اور کہاں ہوگا؟
حالیہ دنوں میں پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کے درمیان کشیدگی اس وقت شدت اختیار کر گئی جب بیانات کی لڑائی نے سیاسی اختلافات کو کھلے مناقشے میں بدل دیا۔ ابتدا میں معاملہ دونوں صوبوں کی کارکردگی کے تقابلی بیانات تک محدود تھا، تاہم اب یہ تنازع وفاقی سطح تک پہنچ گیا ہے۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اور اتوار کے روز یہ معاملہ ایک نئے درجے میں داخل ہوگیا، جب سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے ایک پریس کانفرنس کے دوران الزام عائد کیا کہ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز وفاقی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ اپنے چچا، وزیر اعظم شہباز شریف، پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔
مزید پڑھیں: والد اور چچا کی طرح مریم نواز بھی پہلے وزیراعلی ہی بنیں گی، عظمیٰ بخاری
پنجاب حکومت کی جانب سے اس الزام کا فوری اور سخت جواب دیا گیا۔ وزیرِ اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے شرجیل میمن کے بیانات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی دراصل پنجاب اور وفاق دونوں کے خلاف سازش میں مصروف ہے۔
انہوں نے طنزاً کہا کہ آپ اتنے نادان ہیں کہ پنجاب کے خلاف سازش میں شامل ہو رہے ہیں اور خود نہیں سمجھ رہے کہ آپ کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ عظمیٰ بخاری نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ کیا وزیر اعظم نے آپ کو سیلاب متاثرین پر سیاست کرنے کے لیے کہا تھا؟
یہ تنازع دراصل سیلاب کے بعد شروع ہوا جب دونوں صوبائی حکومتوں نے ایک دوسرے کی کارکردگی پر تنقید شروع کی۔ سندھ کے وزیر شرجیل میمن نے پنجاب حکومت کو ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے مناظرے کا چیلنج دیا تھا، جسے وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے قبول کرلیا۔
اس بیان بازی نے سیاسی ماحول کو مزید گرما دیا، اور اب دونوں جماعتیں نہ صرف صوبائی بلکہ وفاقی سطح پر بھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔
مزید پڑھیں:مریم نواز نے پیپلز پارٹی کا معافی مانگنے کا مطالبہ مسترد کردیا
پارلیمانی ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی نے احتجاجاً وفاقی حکومت سے دونوں ایوانوں میں عدم تعاون کا فیصلہ کیا ہے، جس کا سلسلہ تیسرے روز بھی جاری رہا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی کے واک آؤٹ کے بعد تحریک انصاف نے بھی پارلیمانی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے کورم کے بہانے اجلاس سبوتاژ کرنے کی تیاری کی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ مناقشہ فوری طور پر ختم ہونے کا امکان نہیں اور آنے والے دنوں میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی دراڑ مزید گہری ہو سکتی ہے۔
ادھر پیپلز پارٹی اور پنجاب حکومت کے درمیان جاری تنازع میں نیا موڑ اس وقت آیا جب مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے۔