قطر کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے منگل کے روز کہا کہ اسرائیل کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے مطابق اب تک غزہ میں اپنی کارروائیاں بند کر دینی چاہیے تھیں۔
دوحہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ماجد الانصاری نے کہا کہ جنگ بندی سے متعلق سوال سب سے پہلے اسرائیلی قابض حکومت سے پوچھا جانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ امن منصوبہ مزید وضاحت اور مذاکرات کے محتاج ہے، وزیر اعظم قطر
’اگر وہاں کے وزیراعظم کے بیانات، جن میں ٹرمپ منصوبے پر عمل درآمد کی بات کی گئی تھی، واقعی درست ہیں تو اسرائیل کو جنگ بندی کر دینی چاہیے تھی۔‘
Qatar’s foreign ministry spokesman Majed al-Ansari says that Israel should have ceased operations in Gaza already in line with US President Donald Trump’s peace plan.#Israel #Gaza #Qatar pic.twitter.com/buzBwfGTLK
— Al Arabiya English (@AlArabiya_Eng) October 7, 2025
اس ہفتے مصر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان امریکی صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے پر بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں، جس کا مقصد غزہ میں جنگ کے خاتمے اور بعد از جنگ انتظامی خاکہ تیار کرنا ہے۔
گزشتہ جمعے کو حماس کی جانب سے ٹرمپ منصوبے کے تحت یرغمالیوں کی رہائی پر بات چیت پر آمادگی کے بعد امریکی صدر نے اسرائیل سے غزہ میں حملے روکنے کی اپیل کی تھی۔
صدرٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر لکھا کہ اسرائیل کو فوری طور پر غزہ پر بمباری روکنی چاہیے تاکہ ہم یرغمالیوں کو محفوظ اور جلد رہا کرا سکیں۔
مزید پڑھیں: قطر پر حملہ ہوا تو امریکا فوجی مداخلت کرےگا: ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کردیے
ماجد الانصاری نے مصر میں جاری امن مذاکرات پر محتاط ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ انہیں کوئی شک نہیں کہ یہ مذاکراتی عمل ایسا ہے جس میں تمام فریق اتفاقِ رائے تک پہنچنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
’تاہم بہت سے عملی نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ منصوبے کی دفعات ’عملی تشریح اور زمینی سطح پر نفاذ‘ کی متقاضی ہیں، جس کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ مسلسل رابطہ ضروری ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل کی طرف سے معافی اور دوبارہ حملہ نہ کرنے کی یقین دہانیوں کو سراہتے ہیں، قطر
جب ان سے دوحہ میں حماس کے سیاسی دفتر کے مستقبل سے متعلق سوال کیا گیا، تو ترجمان وزارتِ خارجہ نے کہا کہ اس پر بات کرنا ابھی قبل از وقت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے گزشتہ ماہ قطر کے دارالحکومت میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے کے باوجود یہ دفتر دوحہ کی ثالثی میں مددگار رہا ہے۔
’جب تک حماس کے ساتھ رابطے کے لیے کسی چینل کی ضرورت باقی ہے، اس دفتر کی ضرورت بھی رہے گی۔‘