ایک حیران کن تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ممکن ہے انسانوں کے ڈی این اے میں اجنبی مخلوق یعنی ایلینز کے جینز شامل ہوچکے ہیں۔
امریکا کے ڈی این اے ریزونینس ریسرچ فاؤنڈیشن کے بانی ڈاکٹر میکس ریمپل کے مطابق یہ عمل انسانیت میں ممکنہ طور پر ایک جینیاتی تبدیلی کی علامت ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیویارک: آسمان میں پراسرار اشیا کی نقل و حرکت، کیا یہ خلائی مخلوق کی کارستانی ہے؟
ڈیلی میل کے مطابق ڈاکٹر ریمپل نے عام افراد اور اُن لوگوں کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ایلینز کے ذریعے اغوا ہوچکے ہیں۔
تحقیق میں ایک ہزار جینومز پراجیکٹ سے حاصل کردہ 581 خاندانوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا، جن میں سے 11 خاندانوں میں ایسے ’غیر والدینی‘ جینیاتی تسلسل پائے گئے جو کسی بھی والدین سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔
یہ جینیاتی تبدیلیاں 348 ایسے مختلف حصوں پر مشتمل تھیں جو قدرتی انسانی جینز سے مطابقت نہیں رکھتیں اور چونکہ ان افراد کی پیدائش 1990 سے پہلے ہوئی تھی، اس لیے جدید جین ایڈیٹنگ ٹیکنالوجی جیسے CRISPR کا امکان مسترد کردیا گیا۔
ڈاکٹر ریمل کے مطابق اگر یہ شواہد درست ثابت ہوئے تو ممکن ہے انسانوں میں وہ افراد شناخت کیے جاسکیں جن کے اندر ’ایلین ڈی این اے‘ موجود ہے، یعنی ممکنہ ہائبرڈ نسل۔
یہ بھی پڑھیں: پراسرار سیارچہ خلائی مخلوق کا بھیجا گیا کوئی مشن ہوسکتا ہے، ہارورڈ کے سائنسدان کا دعویٰ
ان کا کہنا ہے کہ بعض ایسے لوگ جنہیں آٹزم، ADHD یا دیگر نیورولوجیکل فرق جیسے عارضے لاحق ہیں، ممکن ہے ان میں بھی یہ جینیاتی عناصر پائے جائیں، تاہم یہ محض مفروضہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ تبدیلیاں انسانوں کو غیرمعمولی صلاحیتیں بھی دے سکتی ہیں، جیسے ٹیلی پیتھی، البتہ محقق نے تسلیم کیا کہ ابھی تک کوئی حتمی ثبوت موجود نہیں اور مزید درست ڈیٹا کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ موجودہ تجارتی جینیاتی ٹیسٹ اس سطح کی درستگی نہیں رکھتے، اس لیے انہیں نئی نسل کی مکمل جینوم سیکوینسنگ ٹیکنالوجی سے جانچنے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب معروف مصنف نائجل واٹسن، جو ’پورٹریٹس آف ایلین انکاؤنٹرز ری ویزیٹڈ‘ کے مصنف ہیں، نے کہا کہ اس تحقیق کو احتیاط سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اغوا کے دعوے عموماً نفسیاتی یا دیگر زمینی وجوہات پر مبنی ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بادلوں پر انسان کھڑے ہیں یا خلائی مخلوق؟ ویڈیو دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین دنگ رہ گئے
ان کے مطابق، ایسے کیسز پر مزید جینیاتی تحقیق مفید ثابت ہوسکتی ہے لیکن نتائج کو ثابت کرنے کے لیے غیر معمولی شواہد درکار ہوں گے۔
ڈاکٹر ریمپل کا ماننا ہے کہ اگر یہ مفروضہ درست نکلا تو یہ دریافت انسانیت کے مستقبل پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہے۔
ان کے بقول، ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ انسانوں میں ’ایلین ہائبرڈائزیشن‘ کی کتنی مقدار کرۂ ارض کے لیے فائدہ مند ہوسکتی ہے اور کن مخلوقات سے جینیاتی ملاپ زیادہ محفوظ سمجھا جائے گا۔