پاک سعودی تعلقات اور تاریخی پس منظر

جمعرات 9 اکتوبر 2025
author image

رعایت اللہ فاروقی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وزیراعظم شہباز شریف کا  مختصر دورانیے میں دوسرا دورہ سعودی عرب متوقع ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے بیچ کسی ہمہ جہت قسم کی پیشرفت کام چل رہا ہے اور تیزی سے چل رہا ہے۔ کچھ خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ تجارت و سرمایہ کاری بڑے فروغ  کے لیے دونوں ممالک کی مشترکہ ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔ کچھ سالوں کے وقفے کے بعد ایک بار پھر دونوں برادر ممالک کے بیچ روابط کی یہ پرجوش سرگرمی دونوں ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ خطے کے لیے مثبت امکانات رکھتی ہے۔

ہم نے پاک سعودی دفاعی معاہدے پر لکھے اپنے کالم میں لکھا تھا عرب ممالک کا مسلم ممالک میں سے پاکستان کے ساتھ تعلق بہت قربت کا ہے۔ اس طرح کا تعلق دیگر مسلم مالک سے ان کا نہیں ہے۔ تب ہم نے اس کی وجہ ماضی قریب کی اس تاریخی جھلک کی صورت پیش کی تھی جو عرب اسرائیل جنگوں سے جڑی ہے۔ چونکہ معاہدہ دفاعی تھا سو ہم نے تاریخی بیک گراؤنڈ بھی دفاعی پیش کیا تھا۔ اب معاملہ ہمہ جہت اور بالخصوص تجارتی اہمیت کا ہے سو تجارتی بیک گراؤنڈ دیکھنا ہوگا۔ تجارتی بیک گراؤنڈ کے لئے ہمیں ذرا نہیں بہت گہرا غوطہ لگانا پڑے گا۔ یعنی قیام پاکستان سے بہت پیچھے اس دور میں جانا پڑے گا جب یہ خطہ ہند یا بلاد الہند کے نام سے جانا جاتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کھیل سے جنگ

یہ 7ویں صدی تھی جب عرب تاجر ہندوستانی ساحلوں پر اترے تھے۔ اس کی ایک سینہ بسینہ قسم کی روایت خاص طور پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور کا بھی ذکر کرتی ہے کہ پہلا قافلہ تب پہنچا تھا۔ مگر اس کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں۔ وہ چونکہ صحابہ کرام اور تابعین کا دور تھا سو ان تاجروں کا کیرالہ کے ہندو تاجروں پر گہرا اخلاقی اثر ہوا۔ اور یہاں اسلام پھیلنے لگا۔ پھر ایک مسئلہ یہ تھا کہ سفر ہوتے بھی طویل سمندری تھے یوں فوری آنا جانا نہ ہوتا بلکہ عرب تاجروں کو کیرالہ میں کچھ مدت کا قیام بھی کرنا پڑتا۔ اس قیام نے وہاں مستقل مکان اور شادی کا امکان بھی پیدا کردیا۔ چنانچہ عرب تاجروں نے مقامی نومسلم گھرانوں میں شادیاں بھی کرلیں۔ اس سے وہ موپلا مسلم برادری وجود میں آئی جس کا ننیہال ہندوستانی اور ددیال عرب ہے۔ ان رشتوں کا اثر یہ ہے کہ آج بھی سعودی عرب میں کیرالہ کے مسلمانوں کو ذرا اضافی قربت حاصل ہے، کیونکہ عرب انہیں اپنا رشتے دار مانتے ہیں۔

یہ تو ہوا ہمارے خطے کے مسلمانوں سے عربوں کا پہلا ربط۔ مگر بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ بلکہ ایک اور پہلو قیام پاکستان کے آس پاس کی صدیوں کا بھی ہے۔  یہ زمانہ وہ تھا جب عرب سرزمین پر تیل ابھی دریافت نہ ہوا تھا۔

اس زمانے  میں برصغیر میں پھیلی مسلم ریاستوں کے نوابوں و حکمرانوں کا یہ معمول تھا کہ وہ اپنی زکوٰۃ اور چیرٹی ہر سال حج کے موقع پر حجاز بھجواتے۔ جس سے وہاں کے مقامی لوگوں کی بڑی مدد ہوجایا کرتی۔ یہ سلسلہ اتنی پابندی کے ساتھ چلا کہ اہل حجاز ہر سال حج کے موقع ہندوستانی قافلوں کا انتظار کرتے۔

عرب چونکہ ایک بڑی قوم ہے۔ وہ قوم جہاں اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے محبوب ﷺ کو مبعوث فرمایا تھا۔ سو اس کی اقدار بھی عالی ہیں۔ تیل دریافت ہونے کے بعد عربوں نے سب بھلا نہ دیا بلکہ یہاں کے مسلمانوں کی نیکی کو یاد رکھا۔ چنانچہ جب تیل کی آمدنی شروع ہوئی تو ہندوستان کے مسلمان دو حصوں میں بٹ چکے تھے۔ ایک حصہ پاکستان کے نام سے مستقل مملکت کی صورت اختیار کرگیا تھا۔ جبکہ دوسرا حصہ  ہندوستان میں ہی رہ گیا تھا۔ عربوں نے دونوں کا ہی خیال رکھنا شروع کردیا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مودی کی آؤ بھگت مودی سے کسی محبت کا اظہار ہوتا ہے تو یہ غلط فہمی رفع کر لینی چاہیے۔ مودی 24 کروڑ مسلمانوں کا بھی وزیر اعظم ہے۔ اسے ابوجہل کی نظر سے دیکھا متاثر ہندوستانی مسلمان ہوں گے۔ پاک و ہند کے مسلمانوں کو غیر معمولی تعداد میں ملازمتیں بھی عرب ممالک نے اسی تعلق و تاریخ کی نسبت سے دے رکھی ہیں۔

مزید پڑھیے: بگرام کا ٹرک

یہ پورا تاریخی پس منظر یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ عربوں کا پاک و ہند سے رشتہ لگ بھگ اٹوٹ نوعیت کا ہے۔ اس میں وقتی اونچ نیچ تو آ سکتی ہے مگر یہ قربت ٹوٹ نہیں سکتی۔ کیونکہ قیام پاکستان کے بعد تو یہ قربت مورچے کے تعلق میں بھی بدل چکی۔ ہم دو عرب اسرائیل جنگوں میں ان کے شانہ بشانہ لڑ چکے اور کسی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے اب بڑی سطح کا بلکہ آخری سطح کا معاہدہ بھی کرچکے۔ مورچے کی دوستی سے بڑی دوستی کوئی نہیں ہوتی۔

وزیر اعظم شہباز شریف کا متوقع دورہ اگر کسی بڑے تجارتی معاہدے کے ثمرات لایا  تو یہ 7ویں صدی والے عرب تاجروں کا ہی تسلسل ہوگا۔ اس ضمن میں اچھی بات یہ ہے کہ تاریخ کے اس اہم ترین موڑ پر پاکستان میں شریف خاندان ہی اقتدار میں ہے۔ پلیز ہمیں پٹواری نہ سمجھ بیٹھیے گا۔ ہم بس اس حقیقت کا اظہار کر رہے ہیں جو پچھلے 40 سال سے شریف خاندان کی سعودی شاہی خاندان کے ساتھ ذاتی، سیاسی و قومی دوستی کی صورت موجود ہے۔ اور جس کا پاکستان اور سعودی عرب دونوں کو اس پورے عرصے میں بہت غیر معمولی فائدہ ہوا ہے۔ اگر اس وقت پاکستان میں زرداری صاحب کی حکومت ہوتی تو ہم شاید ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ میں اضافے کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہوتے۔

مزید پڑھیں: دفاعی معاہدہ، سیاسی امکانات

ان کی ترجیحات تو اسی سمت اور اسی نوع کی ہیں بھائی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کے ہر دور میں سب سے بڑا نقصان یہی ہوتا آیا ہے کہ سعودی عرب سے ہمارے تعلقات اگر کسی نقصان سے دوچار نہیں بھی ہوئے تو جمود کا شکار لازما ہوئے ہیں۔ بلکہ سچ پوچھیے تو کوئی بعید نہیں کہ شہباز شریف کے خلاف عدم اعتماد والی شرلی سے پیپلز پارٹی سعودی عرب کو ہی کوئی منفی سگنل دینے کی کوشش کر رہی ہو۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

نوبل انعام کون دیتا ہے اور یہ کیسے طے ہوتے ہیں؟ جانیے نامزدگی اور انعام کی تفصیلات

موٹرسائیکل سوار کی رکشے میں بیٹھی خاتون کے ساتھ بدتمیزی، دوپٹہ کھینچنےکی ویڈیو وائرل

مصر کی شاندار کامیابی، ورلڈ کپ2026 کے لیے کوالیفائی کر لیا

ڈزنی لینڈ میں افسوسناک واقعہ: جھولے کی سواری کے دوران 60 سالہ خاتون کا انتقال

بغیر لائسنس ڈرائیوروں پر مقدمات کے بجائے وارننگ اور جرمانہ کیا جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ کی ہدایت

ویڈیو

وہ اسکول جو ملالہ جیسی سماجی کارکنوں کے منتظر ہیں

درزیوں کے ضائع کپڑوں سے آرٹ بنانے والی خاتون: ‘ماہانہ 2 لاکھ منافع کماتی ہوں’

سعودی سرمایہ کاروں کے وفد کی پاکستان آمد، امریکا سے بھی بڑی خبر آگئی

کالم / تجزیہ

بیت اللہ سے

ڈیجیٹل اکانومی پاکستان کا معاشی سیاسی لینڈ اسکیپ بدل دے گی

سابق سعودی سفیر ڈاکٹر علی عسیری کی پاک سعودی تعلقات پر نئی کتاب