چینی اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹیٹیوٹ آف زولوجی کے سائنس دانوں کی ایک تحقیقی ٹیم نے مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی پروٹین لینگویج ماڈل کی مدد سے زندگی کے ارتقا کا اہم راز دریافت کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں: مصنوعی ذہانت نے مذہبی معاملات کا بھی رخ کرلیا، مذاہب کے ماننے والے کیا کہتے ہیں؟
مذکورہ ٹیم نے زندگی کے ارتقائی عمل کا ایک اہم میکانزم دریافت کیا جو یہ وضاحت کرتا ہے کہ مختلف جاندار ایک جیسے ماحولیاتی حالات کے تحت کیسے خود بخود ملتے جلتے افعال اختیار کر لیتے ہیں۔
اس سائنسی تصور کو ‘Convergent Evolution’ کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ مختلف انواع میں ایک جیسی خصوصیات کا آزادانہ اور بار بار ظہور جو مخصوص ماحولیاتی دباؤ یا ضروریات کے تحت وقوع پذیر ہوتا ہے۔
سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ پروٹینز کی اعلیٰ سطحی ساختی خصوصیات اس ہمگرائی کے عمل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر چمگادڑوں اور دانتوں والی وہیلوں کے درمیان جینیاتی فاصلے کے باوجود دونوں نے ماحول کو جانچنے کے لیے ایک جیسی صلاحیت، ایکو لوکیشن، آزادانہ طور پر حاصل کی ہے۔
مزید پڑھیے: لاکھوں ملازمتیں مصنوعی ذہانت کے نشانے پر، کون بچ پائے گا؟
تحقیق کی قیادت کرنے والے سائنس دان زو ژینگٹنگ نے ایک نیا کمپیوٹیشنل تجزیاتی فریم ورک متعارف کرایا ہے جسےاے سی ای پی کا نام دیا گیا ہے۔ اس فریم ورک کی بنیاد ایک پہلے سے تربیت یافتہ پروٹین لینگویج ماڈل پر رکھی گئی ہے۔
زو نے وضاحت کی کہ پروٹین لینگویج ماڈل امینو ایسڈز کے سلسلوں کے پیچھے پوشیدہ ساختی و فعالی خصوصیات اور پیٹرنز کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تحقیق نہ صرف زندگی کے ارتقائی قوانین کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتی ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کس طرح پیچیدہ حیاتیاتی مسائل کو حل کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتی ہے۔
مزید پڑھیں: لاہور پولیس کا ’مشینی مخبر‘: اب مصنوعی ذہانت چور ڈکیت پکڑوائے گی!
تحقیقی ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں ارتقائی حیاتیات کے میدان میں مصنوعی ذہانت کی مزید وسیع اور مؤثر اطلاق کی امید رکھتے ہیں۔