اٹلی کی حکمران جماعت ’برادرز آف اٹلی‘ نے ملک بھر میں برقع اور چہرہ چھپانے والے مذہبی لباس پر مکمل پابندی لگانے کی تجویز پیش کی ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق، مجوزہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر 3,000 یورو تک جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔
پابندی کہاں لاگو ہوگی؟
تجویز کے مطابق، پبلک مقامات، تعلیمی ادارے (اسکول، یونیورسٹی)، دفاتر اور تجارتی مراکز میں برقع یا کسی بھی ایسے لباس کی اجازت نہیں ہوگی جو چہرے کی شناختی نظام میں رکاوٹ بنتا ہو۔
قانون کی دیگر شقیں
مجوزہ قانون میں برقع کی پابندی کے ساتھ ساتھ درج ذیل نکات شامل ہیں:
عبادت گاہوں میں غیر ملکی فنڈنگ کی شفافیت کے سخت اصول۔ ورجنٹی ٹیسٹ (عفت کے غیر سائنسی ٹیسٹ) پر مکمل پابندی۔ زبردستی کی شادیوں پر سخت سزائیں۔
یہ بھی پڑھیے فٹبال ورلڈ کپ: باحجاب کھلاڑی نوہیلہ کا اسلاموفوبیا کو منہ توڑ جواب، عرب میڈیا
پارٹی کے مطابق، یہ اقدامات اطالوی شناخت، شہری سلامتی اور خواتین کی آزادی کے تحفظ کے لیے کیے جا رہے ہیں، نہ کہ مذہبی آزادی کو محدود کرنے کے لیے۔
پارٹی کا مؤقف
پارٹی کے رکن پارلیمان گیلیاتسو بینیامی نے کہا کہ یہ قانون انتہاپسندانہ رجحانات اور خفیہ غیر ملکی فنڈنگ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات فراہم کرتا ہے۔
پہلے سے موجود قانون
واضح رہے کہ اٹلی میں 1975 سے ایک قانون موجود ہے جو عوامی مقامات پر چہرہ مکمل ڈھانپنے والے لباس یا ماسک پر پابندی لگاتا ہے، مگر اس کا مقصد جرائم میں چہرہ چھپانے والے عناصر کو روکنا تھا، مذہبی لباس کو نہیں۔
یورپ میں برقع پر پابندی کا پس منظر
فرانس پہلا یورپی ملک تھا جس نے 2011 میں برقع (نقاب) پر مکمل پابندی عائد کی۔ اس کے بعد بیلجیم، آسٹریا، ڈنمارک، نیدرلینڈز اور سوئٹزرلینڈ نے بھی اسی نوعیت کے قوانین نافذ کیے۔
یہ بھی پڑھیے بھارت میں حجاب پہننے پر اسکول پرنسپل گرفتار، عمارت بھی گرا دی گئی
اقوام متحدہ نے ان پابندیوں پر تشویش ظاہر کی ہے کہ ایسے اقدامات خواتین کی مذہبی آزادی اور سماجی شرکت کو محدود کر سکتے ہیں۔














