بظاہر یہی لگتا ہے کہ اب تحریک انصاف کی سیاست ختم ہو چکی ہے۔ وہ ریاست ، اسٹیبلشمنٹ اور پارلیمان کے خلاف ہر ریڈ لائن کراس کر چکے ہیں۔ اب انہیں معافی کسی طور نہیں مل سکتی۔ اب مقدمات کی ایک طویل فہرست ان کی منتظر ہوگی، اب قید و بند کی صعوبتیں ان کا مقدر ہوں گی۔ اب ان پر وہ عذاب اتریں گے جن کا پہلے کبھی ہم نے تذکرہ بھی نہیں سنا تھا۔
اب پارٹی کی باقی قیادت جیل کے پیچھے ہوگی۔ جماعت پر پابندی بھی لگ سکتی ہے۔ ارکان ٹوٹ کر تحریک انصاف کی ایک نئی شاخ بھی بنا سکتے ہیں۔ عمران خان تاحیات نااہل بھی ہو سکتے ہیں۔ پارٹی نشان ’بلا‘ اب ضبط بھی ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف کو ایک شرپسند جماعت قرار دے کر، ملکی سیاست سے باہر بھی کیا جا سکتا ہے۔
اگر یہ سب کچھ ہوتا ہے تو اس میں کسی اور کا نہیں صرف عمران خان کا قصور ہو گا۔ جانے کس برتے پر عمران خان نے اس سماج کی ہر وہ ریڈلائن کراس کی جس پر بات کرتے ہوئے بھی لوگوں کے پر جلتے تھے، جس کا اس ملک میں تصور بھی ناممکن تھا۔ کبھی ان کی پشت پناہی جنرل باجوہ نے کی، کبھی جنرل فیض حمید کے سر یہ سہرا سجا، کبھی عدلیہ میں بیٹھے تحریک انصاف کے ’کارکن ججز‘ نے یہ تمغہ اپنے سینے پر سجایا، کبھی امریکی تائید نے اس سے یہ کام کروائے۔ اب عمران خان اپنے ہی پھیلائے ہوئے جال میں پھنس چکے ہیں۔
اب کورکمانڈر کانفرس کا اعلامیہ ہو، قومی سلامتی کمیٹی کا اعلان ہو، پارلیمان میں ہونے والی تقاریر ہوں، سوفٹ ویئر اپ ڈیٹ ہونے والے صحافی ہوں یا پھر سوشل میڈیا پر معافی مانگتے تحریک انصاف کے کارکن ہوں۔ ہر آلام اب تحریک انصاف پر ٹوٹتا نظر آ رہا ہے، ہر مشکل ان کے سامنے چٹان کی طرح کھڑی ہے۔
اس معاملے کو دیکھنے کا ایک دوسرا زاویہ بھی ہے۔ یوں کہیے پاکستان کی سیاست نے ایک اور چکر مکمل کیا۔ اپنے مدار کے گرد گھومتی ریاست نے ایک پھیرا اور لگا لیا۔ کبھی ذوالفقار علی بھٹو شہید کے خلاف یہ نعرہ لگا کہ وہ ریاست کے خلاف ہیں، کبھی ہم نے بے نظیر شہید کو غدار ثابت کرکے انہیں سیاست سے الگ کرنے کی ٹھانی، کبھی نواز شریف کو یہ الزام دیا گیا کہ وہ ڈان لیکس کے ذریعے اس ملک کی تباہی چاہتے ہیں، کبھی مریم نواز کو اینٹی پاکستان ثابت کرنے کی کوشش کی گئی، کبھی آصف زرداری کو مسٹر ٹین پرسینٹ کہا گیا اور کبھی بلاول بھٹو پر پھبتی کسی گئی۔
کسی نے نہیں سوچا تھا کہ چہیتے عمران خان پر بھی یہ وقت آئے گا لیکن آصف زرداری اور مشاہد اللہ خان کی پارلیمنٹ میں تقاریر یاد کیجیے، وہ جانتے تھے کہ چند برس میں ایسا ہی ہو گا۔ وہ جانتے تھے کہ آج الزام لگانے والے کل کو ملزم ٹھہریں گے، آج پھبتیاں کسنے والے کل کو تماشا بنیں گے، آج غداری کے سرٹیفیکٹ بانٹنے والے کل کو ننگ وطن کہلائیں گے، آج کے چہیتے کل کو قابل نفرین ہوں گے۔
یہ ماننے میں کوئی حرج نہیں کہ اقتدار میں آنے کے لیے سب نے وہی رستہ اختیار کیا جو عمران خان نے پسند کیا۔ سب نے خفیہ دروازے کا انتخاب کیا، سب نے باقی سیاسی جماعتوں پر بہتان لگائے، مقدمے بنوائے اور فائلیں کھلوائیں، کردار کشی کی، اپوزیشن کو جیلیوں میں دھکیلا اور ایک دوسرے کو بہانے بہانے سے اینٹی سٹیٹ ثابت کیا۔
عمران خان کے کیس کی نوعیت اس لیے مختلف ہے کہ انہوں نے ہر وہ ریڈ لائن کراس کی جس کی ممانعت ہے۔ انہوں نےاسٹیبلشمنٹ کو آئین پر عمل کرنے کا درس نہیں دیا بلکہ اپنے کارکنوں کو اہم فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کا حکم دیا، شہدا کی یادگاریں نذر آتش کر دیں، سپہ سالار پر ہی الزام لگا دیا۔
اس نہج تک پہنچنے میں عمران خان کے ساتھ ان کے سہولت کار بھی شریک جرم ہیں جنہوں نے ہر مدد خفیہ یا اعلانیہ ان کو پہنچائی۔ ان پوشیدہ سہولت کاروں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جن کے برتے پر عمران خان نے ہر چیز کو آگ لگانے کا فیصلہ کیا۔ جن کے ایما پر فوج سے براہ راست ٹکر لی، جن کے کہنے پر اس ملک کی ہر ریت، رواج اور رسم کو روند ڈالا۔ ان کے نام شاید کبھی سامنے نہ آئیں مگر مان لینا چاہیے کہ شریک جرم وہ لوگ بھی تھے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان اس گرداب سے نکل سکیں گے؟ ایسے میں جب کہ حساس ترین ادارہ ان سے سخت ناراض ہے، جب کہ عدلیہ میں چھپے ان کے کارکن سہم چکے ہیں، جبکہ ان کی پارٹی کے لوگ یکے بعد دیگرے گرفتار ہو چکے ہیں اور سوشل میڈیا کے جغادری چپ ہو گئے ہیں۔
عمران خان کے بچنے کی اب ایک ہی صورت ہے وہ ان لوگوں سے بات کریں جنہیں انہوں نے گزشتہ 26سال کی سیاسی جدوجہد میں صرف گالی دی ہے، ان سے میثاق جمہوریت کریں جن کے خلاف ان کے منہ سے ہمیشہ گالی نکلی ہے۔ ان کی سیاسی بصیرت کو تسلیم کریں جنہیں عمران خان نے ہمیشہ برے القابات سے نوازا ہے۔
یہ مان لینا چاہیے کہ تحریک انصاف گیٹ نمبر 4کی پیداوار ہے مگر اب اس کا ایک سیاسی اثر و نفوذ ہے۔ اس موقع پر جب عمران خان کو کوئی رستہ نظر نہیں آ رہا تو انہیں وہی بچا سکتے ہیں جو خود اس عمل سے کئی بار گزرے ہیں۔
تحریک انصاف کو شاید ایک نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا میثاق جس کی بنیاد دشنام نہ ہو دلیل ہو، جس کی وجہ الزام نہ ہو بلکہ سیاسی بصیرت ہو۔ دوسروں کو پہلے تسلیم کریں پھر مکالمے کی فضا سازگار کریں۔ ایسا پہلے بھی ہوا ہے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ بھی ایک دوسرے کی جانی دشمن رہی ہیں مگر ان قوتوں نے پھر ریاست کی خاطر ایک ایسا میثاق کیا جس سے جمہوریت مضبوط ہوئی تھی۔
عمران خان کو بھی اس ڈائیلاگ کا آغاز کرنا چاہیے لیکن اس دفعہ اس اقدام کی وجہ کسی جنرل، جج یا جرنلسٹ کا اشارہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ جمہوریت کی پاسداری ہونی چاہیے۔ مقصد انتشار نہیں بلکہ آئین ہونا چاہیے۔ اس میثاق نو کی وجہ دوسروں کی بے عزتی نہیں بلکہ ووٹ کی عزت کا نعرہ ہونا چاہیے۔
لیکن یہ سب کچھ ہو گا نہیں۔ کیونکہ اس میثاق میں ایک تو عمران خان کی ذات کا تکبر مانع ہے، دوسرا یاد رکھیے کہ مسلسل دوسروں کے کاندھوں پر سوار لوگوں کو کبھی اپنے قدموں پر چلنا نہیں آتا ۔