کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ دنیا میں صرف زندہ رہنے نہیں آتے، وہ وقت کے افق پر اپنی روح کی آواز ثبت کرنے آتے ہیں۔ کشور کمار بھی ایسا ہی ایک جادو تھا جو نہ کسی فن کی قید میں رہا، نہ شہرت کی، اور نہ ہی زمانے کے کسی پیمانے میں سماتا تھا۔ وہ ہنستا تھا، گاتا تھا، روتا تھا، مگر ہر لمحہ جیسے خود زندگی کا ترانہ بن جاتا۔
آج جب اُس کی آواز کی بازگشت وقت کے شور میں بھی سنائی دیتی ہے، تو لگتا ہے کشور کمار نہیں گئے، بس پردہ بدل گیا ہے۔
’زندگی ایک سفر ہے سہانا‘ مسکراہٹ کے پیچھے چھپی مسافت
کشور نے یہ گیت ایسے گایا جیسے زندگی خود مسکرا کر گنگنا اٹھی ہو۔ اس ایک مصرعے میں اُس کی پوری زندگی سمٹ آتی ہے۔ وہ ایک مسافر تھا، جو کبھی منزل کی فکر نہیں کرتا تھا۔ اس کے نزدیک اصل حسن سفر میں تھا، اور شاید اسی لیے اس کا فن کسی انجام تک نہیں پہنچا، وہ ہمیشہ جاری رہا۔ زندگی اُس کے لیے گیت تھی، اور گیت ہی اُس کی سانس۔
’پَل پَل دل کے پاس‘ وہ آواز جو دل کی دھڑکن بن گئی
کشور کی آواز میں ایک عجیب قربت تھی۔ جیسے کوئی تمہارے پاس بیٹھا، دل کی بات کہہ رہا ہو۔ یہ گیت صرف محبت کا اقرار نہیں، ایک عہد ہے کہ احساس کبھی مرتے نہیں۔
کشور نے الفاظ کو دل کے لہجے میں ڈھالا، اور سُر کو سانس کی نرمی میں۔ تبھی تو آج بھی کوئی تنہا شام میں یہ گیت سنتا ہے تو دل دھڑکنے لگتا ہے۔
’چلا جاتا ہوں کسی کی دُھن میں‘ خواب، جدائی اور وقت کا سفر
یہ وہ گیت ہے جو وقت کے چلتے پہیوں کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے۔ کشور کی آواز یہاں ایک مسافر کی طرح ہے جو ہر موڑ پر رخصت کے درد کو مسکراہٹ میں بدل دیتا ہے۔
یہ گیت شاید اُس کی اپنی زندگی کا عکس بھی تھا، وہ مسلسل چلتا رہا، کبھی رُکا نہیں۔ محبت، شہرت، تنہائی۔ سب کے بیچ وہ خود کو تلاش کرتا رہا۔
’رُوپ تیرا مستانہ‘ وہ لمحہ جب دھن، دل اور دیوانگی ایک ہوئے
جب یہ گیت گونجتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے خود موسیقی ناچ اٹھی ہو۔
کشور کمار نے اس نغمے میں دیوانگی کو فن میں بدل دیا۔ یہ وہ لمحہ ہے جب آواز اور جذبات ایک دوسرے میں گھل جاتے ہیں۔ نہ اداکار نظر آتا ہے، نہ گلوکار، صرف جذبہ رہ جاتا ہے۔ یہ کشور کی پہچان تھی، دیوانگی میں کمال، اور کمال میں دیوانگی۔
’کوئی ہوتا جس کو ہم اپنا کہہ لیتے‘ کشور کی تنہائی کا المیہ
روشنیوں کے اس شہزادے کے اندر ایک خاموش اندھیرا بھی تھا۔ یہ گیت اُس کے دل کی گہرائیوں سے نکلا دکھ ہے۔ وہ شخص جس کے گانے نے دنیا کو مسکرانا سکھایا، خود اندر سے تنہائی کا قیدی رہا۔
کشور محبت مانگتا نہیں تھا، بس یاد کرتا تھا۔ اور شاید اسی لیے یہ نغمہ ہر اس دل کو چھو لیتا ہے جو کبھی کسی کے بغیر رہنے کی اذیت سے گزرا ہو۔
’ہمیں تم سے پیار کتنا‘ فن سے عشق کی وہ گہرائی جس کا کوئی سرا نہیں
یہ گیت صرف ایک محبوب سے محبت کا نہیں، بلکہ فن سے محبت کا اعتراف بھی ہے۔ کشور نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اسی عشق میں گزارا، گانے میں، ہنسنے میں، حتیٰ کہ خاموشی میں بھی۔
یہ وہ محبت تھی جو نہ زبانی تھی نہ وقتی، بلکہ سانس کی طرح تھی۔ شاید اسی لیے وہ فنکاروں میں ایک صوفی لگتا ہے، دنیاوی نہیں، الوہی۔
’میرے سپنوں کی رانی‘ مقبولیت کی دوڑ میں ایک شرمیلا شہزادہ
یہ گیت اُس کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ عوامی دیوانگی، شہرت کا طوفان، اور ایک نیا چہرہ جو سب کے دلوں پر چھا گیا۔ مگر پردے کے پیچھے وہی شرمیلا، انوکھا، اور خود میں گم کشور چھپا بیٹھا تھا۔
وہ اس شہرت کو بوجھ کی طرح اٹھاتا رہا، جیسے اسے معلوم ہو کہ شہرت روشنی نہیں، جلتا ہوا چراغ ہے۔
’کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے‘ شاعری کی صورت میں سچائی
یہ گیت کسی نرمی سے نہیں، کسی سچائی سے نکلتا ہے۔ کشور نے اسے گاتے ہوئے عشق کو فلسفے میں بدل دیا۔ اس کے لہجے میں ایک ٹھہراؤ، ایک ندامت، اور ایک دعا چھپی ہے۔ یہی اُس کے فن کا کمال تھا وہ گاتا نہیں تھا، زندگی کو محسوس کراتا تھا۔
’چھو کر میرے من کو‘ زندگی کو گنگنانے کا فن
اگر کسی کو یہ جاننا ہو کہ خوشی کی آواز کیسی ہوتی ہے تو یہ گیت سن لے۔ کشور کی ہنسی، اُس کی شرارت، اور زندگی سے اس کا عشق یہاں جھلکتا ہے۔ یہ وہ فنکار تھا جو ہر درد کو گیت میں بدل دیتا تھا۔ جہاں دوسرے لوگ سانس لیتے ہیں، وہ گاتا تھا۔
’یہ جو محبت ہے‘ وہ گیت جو ہمیشہ زندہ رہے گا
محبت۔ وہ لفظ جو کشور کی پہچان بھی ہے، اس کا انجام بھی۔ یہ گیت اُس کی روح کی ترجمانی کرتا ہے، جیسے وہ دنیا سے کہہ رہا ہو کہ محبت ختم نہیں ہوتی، صرف شکل بدلتی ہے۔
کشور کی آواز بھی محبت کی طرح ہے نہ پرانی ہوتی ہے، نہ مدھم۔ وقت گزر جاتا ہے، مگر اُس کے گانے دل میں یوں تازہ رہتے ہیں جیسے ابھی ابھی سنے ہوں۔
’زندگی کے سفر میں گزر جاتے ہیں جو مقام‘ ایک نغمہ، اک یاد
کشور کمار کی زندگی ایک سفر تھی۔ ہنسی اور دکھ کے بیچ، عشق اور جنون کے بیچ، فن اور خاموشی کے بیچ۔ وہ صرف گلوکار نہیں تھا، انسانی احساسات کی ڈائری تھا، جو دھنوں میں لکھی گئی۔
آج جب دنیا بدل چکی ہے، جب آوازیں مشینوں سے بن رہی ہیں، کشور کی آواز اب بھی زندہ ہے کیونکہ وہ صرف سُر نہیں، روح کی گونج تھی۔ کشور کمار 13 اکتوبر 1987 کو راہی عدم ہوئے، مگر اس کی آواز وقت کی قید سے آزاد ہو کر آج بھی گونجتی ہے۔ جیسے زندگی خود گنگنا رہی ہو:
’جب تک میں نے سمجھا، جیون کیا ہے ۔ ۔ ۔ ‘
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













