سپریم کورٹ میں آئینی ترمیم پر بحث، ججز کے سوالات نے سماعت کو نیا رخ دے دیا

بدھ 15 اکتوبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران فل کورٹ اور 16 رکنی بینچ کے دائرہ اختیار پر تفصیلی بحث ہوئی۔ ججز کے سوالات اور وکلا کے جوابات نے سماعت کو غیر معمولی بنا دیا۔ عدالت نے سماعت 20 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت دوبارہ شروع ہوگئی۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آٹھ رکنی آئینی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

بینچ کی تشکیل اور ارکان

آئینی بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔

وکلا کی پیشی اور ابتدائی مکالمہ

سماعت کے آغاز پر سابق صدور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل عابد زبیری روسٹرم پر آئے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ امید ہے آج آپ اپنے دلائل مکمل کر لیں گے، جس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ جی، آج دلائل مکمل کر لوں گا۔

یہ بھی پڑھیں:’26 ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ تشکیل دینا قانونی تقاضا ہے‘

بعد ازاں وکیل اکرم شیخ نے روسٹرم سنبھالا اور عدالت سے گزارش کی کہ کارروائی کا آغاز بسم اللہ سے ہونا چاہیے تاکہ ماحول بہتر رہے۔ انہوں نے یہ بات ہلکے پھلکے انداز میں کہی۔

وکلا کے دلائل کے لیے وقت مقرر کرنے کی تجویز

اکرم شیخ نے مزید کہا کہ وکلاء کو دلائل دینے کے لیے وقت مقرر کیا جائے۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ وقت کی پابندی سب پر لاگو ہوگی۔

بینچز کی تشکیل پر عابد زبیری کے دلائل

عابد زبیری نے اپنے دلائل میں کہا کہ بینچز کی تشکیل پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اختیار ہے۔ ان کے مطابق آئینی بینچز کی تشکیل کا اختیار آئینی کمیٹی کے پاس ہوتا ہے، جو صرف آئینی بینچ کے لیے 15 ججز کو نامزد کر سکتی ہے۔

عدالتی سوالات اور مکالمے

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ چاہتے ہیں ہم آئینی بینچ میں رہتے ہوئے فل کورٹ بنانے کا حکم دے سکتے ہیں؟

جسٹس عائشہ ملک نے سوال اٹھایا کہ کیا آرٹیکل 191 اے فل کورٹ تشکیل دینے پر کوئی قدغن لگاتا ہے؟ اور کیا سپریم کورٹ جوڈیشل کمیشن کو تمام ججز کو آئینی بینچ کا حصہ بنانے کا حکم نہیں دے سکتی؟

ججز کے مشاہدات

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر جوڈیشل کمیشن کوئی غیر آئینی فیصلہ کرے تو سپریم کورٹ اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار برقرار رہے گا، سوال یہ ہے کہ کیا جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ سے بالاتر ہے؟

فل کورٹ کے قیام پر بحث

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ فل کورٹ آئینی بینچ تشکیل دے سکتا ہے، تاہم آئینی بینچ خود فل کورٹ نہیں بنا سکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کی تعریف کے مطابق کمیٹی کے پاس فل کورٹ بنانے کا اختیار نہیں۔

عابد زبیری نے جواب دیا کہ اگر چیف جسٹس آئینی بینچ کے سربراہ ہوں تو وہ فل کورٹ تشکیل دے سکتے ہیں۔

بین الاقوامی مثالوں کا حوالہ

عابد زبیری نے جنوبی افریقہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں آئینی بینچ کی اپیل سپریم کورٹ میں ہوتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ بھارت میں چیف جسٹس کو آئینی بینچ بنانے کا اختیار حاصل ہے، مگر پاکستان میں صورتحال مختلف ہے۔

موجودہ پیشرفت

سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اب معاملہ واضح ہے، وکیل جوڈیشل کمیشن کی مداخلت نہیں چاہتے۔

عدالت نے وکلاء کو آئندہ سماعت پر اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران فل کورٹ اور 16 رکنی بینچ کے دائرہ اختیار پر تفصیلی بحث ہوئی۔ ججز کے سوالات اور وکلا کے جوابات نے سماعت کو غیر معمولی بنا دیا۔ عدالت نے سماعت 20 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

جسٹس امین الدین خان نے دورانِ سماعت کہا کہ آپ کی درخواست تو 16 رکنی بینچ کی تشکیل کے لیے ہے، فل کورٹ بینچ کی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ فل کورٹ نہیں بلکہ صرف 16 ججز چاہتے ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 191 اے کا مطلب یہ ہے کہ اب فل کورٹ کبھی نہیں بیٹھ سکتا؟

انہوں نے مزید پوچھا کہ کیا لارجر بینچ کے فیصلے اب اوور ٹرن نہیں ہوسکیں گے؟ وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ یہی ہمارا مؤقف ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ یہ وضاحت کریں کہ آپ ترمیم سے پہلے کا بینچ کیوں مانگ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:‘گلگت بلتستان میں مقامی طور پر استعمال ہونے والی اشیا پر ٹیکسز عائد نہ کیے جائیں،’ سپریم کورٹ کے ریمارکس

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ اگر آج ہم آپ کے کہنے پر جوڈیشل کمیشن کو تمام ججز کو آئینی بینچ کے لیے نامزد کرنے کا حکم دے دیں تو پھر کیا ہوگا؟ اگر ووٹنگ میں تمام ججز نامزد نہ ہوسکے تو کیا ہم اس عمل پر اثر انداز ہوسکتے ہیں؟

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم جوڈیشل آرڈر کے ذریعے ووٹنگ کے عمل کو روک سکتے ہیں؟

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ عدالت آئینی بینچ کے ججز کی تعداد بڑھانے کا حکم ضرور دے سکتی ہے، لیکن کون شامل ہوگا یہ جوڈیشل کمیشن کا اختیار ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کمیٹی نے ماضی میں جوڈیشل کمیشن سے مزید ججز دینے کی درخواست کی تھی مگر کمیشن نے کہا تھا کہ آپ تعداد بتائیں، نام لینا کمیشن کا اختیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بحث جوڈیشل کمیشن میں ہوچکی ہے اور اٹارنی جنرل اس کے گواہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بطور سربراہ آئینی بینچ، یہ میرا استحقاق ہے کہ میں ججز کے نام جوڈیشل کمیشن کو بھیجوں۔

عابد زبیری نے مؤقف اختیار کیا کہ جوڈیشل اختیارات تمام ججز کے پاس ہیں، انہیں ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کہیں نہیں لکھا کہ فل کورٹ کیس نہیں سن سکتا، اور نہ ہی آئینی بینچ کا جوڈیشل آرڈر پاس کرنے کا اختیار ختم ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:‘کیا موجودہ بینچ متعصب ہے؟’ سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ کے مطابق ہمیں ترمیم سے پہلے جانا پڑے گا۔ کیا موجودہ آئینی بینچ خود کو سپریم کورٹ سمجھ کر فیصلہ دے سکتا ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر 26ویں آئینی ترمیم چیلنج ہونے کے دوران دیکھی جاسکتی ہے تو یہ واضح کیا جانا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ تضادات سامنے آرہے ہیں، آپ 16 رکنی بینچ چاہتے ہیں جبکہ سپریم کورٹ میں اس وقت 34 ججز کی گنجائش ہے۔ اگر 34 ججز مکمل ہوں تو کیا باقی ججز اپیل نہیں سن سکتے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر جوڈیشل کمیشن تمام 34 آسامیاں پوری کر دے اور آپ کی استدعا مان لی جائے کہ صرف 16 ججز کیس سنیں، تو پھر 16 اور 16، 32 بنتے ہیں، یہاں تو 34 ججز موجود ہیں، اس کا مطلب ہے اپیلنٹ بینچ موجود ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم ترمیم سے پہلے جائیں اور چیف جسٹس فل کورٹ بنائیں، تو وہ خود 26ویں ترمیم کے بینیفیشری ہیں جبکہ جسٹس منصور متاثرہ فریق ہیں، تو کیا معاملہ پھر جسٹس امین الدین کے پاس آئے گا؟

آخر میں جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ چونکہ کل وکلا کے انتخابات ہیں، اس لیے کیس کی سماعت پیر، 20 اکتوبر تک ملتوی کی جاتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

فیض حمید اب عمران خان کے خلاف گواہی دیں گے، فیصل واوڈا

پی ٹی آئی صوبے میں ایسے حالات پیدا کر رہی ہے جو گورنر راج کی راہ ہموار کرسکتے ہیں، بلاول بھٹو

وزیراعظم شہباز شریف کی ترکمانستان کے صدر سے ملاقات، دوطرفہ تعلقات کے فروغ پر اتفاق

کورونا وبا: انسانیت بیچین تھی لیکن سمندری مخلوق نے سکھ کا سانس لیا

9 مئی فوج کے سینے میں زخم، فیض حمید کی سزا آنے والے فیصلوں کی ابتدا ہے، عمار مسعود

ویڈیو

کوئٹہ میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے سفری سہولت کا آغاز، گرین بس منصوبے میں پنک بسوں کا اضافہ

فیض حمید کو سزا، اگلا کون؟ عمران خان سے متعلق بڑی پیشگوئی

خضدار کی سلمٰی جو مزدوری کی کمائی سے جھونپڑی اسکول چلا رہی ہیں

کالم / تجزیہ

ٹرمپ کی نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹجی کا تاریخی تناظر

سیٹھ، سیاسی کارکن اور یوتھ کو ساتھ لیں اور میلہ لگائیں

تہذیبی کشمکش اور ہمارا لوکل لبرل