خیبر پختونخوا کے نو منتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے ’عمران خان زندہ باد‘ اور ’خان کو رہا کرو‘ جیسے نعروں کے درمیان اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔
یہ بھی پڑھیں: سہیل آفریدی نے بطور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا عہدے کا حلف اٹھا لیا
تجزیہ کاروں کے مطابق اپنے آپ کو احتجاجی سیاست کا ماہر کہنے والے جوان سال سہیل آفریدی کے لیے وزیراعلیٰ کی کرسی پھولوں کی نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ثابت ہوگی۔
خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے نوجوان سہیل آفریدی کو بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنے دیرینہ ساتھی اور رازداں علی امین گنڈاپور کو ہٹا کر وزیراعلیٰ نامزد کیا تھا۔

سہیل آفریدی کی نامزدگی کے بعد بعض وفاقی وزرا کی جانب سے ان پر کالعدم تنظیموں سے تعلق کے الزامات بھی لگائے گئے اور ان کے انتخاب میں رکاوٹیں ڈالنے کی مبینہ کوششیں کی گئیں۔ تاہم ان تمام تر الزامات اور تنازعات کے باوجود بالآخر پشاور ہائیکورٹ کے حکم پر گورنر خیبر پختونخوا نے ان سے حلف لے لیا۔
شور اور نعروں میں حلف برداری
نو منتخب وزیراعلیٰ کی حلف برداری گورنر ہاؤس پشاور میں ہوئی جہاں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے عدالت کے حکم پر ان سے حلف لیا۔
مزید پڑھیے: سہیل آفریدی نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا عہدہ سنبھالتے ہی پہلا نوٹس کس معاملے کا لیا؟
تقریب میں پارٹی رہنماؤں، سرکاری حکام، بڑی تعداد میں پارٹی ورکرز اور قبائلی عوام نے شرکت کی۔ تقریب کے دوران مسلسل شور، نعروں اور جوش و خروش کا ماحول رہا۔
ورکرز عمران خان، پی ٹی آئی اور سہیل آفریدی کے حق میں نعرے لگا رہے تھے اور عمران خان کی رہائی سے متعلق امیدوں کا اظہار کر رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ سہیل آفریدی نوجوان، متحرک اور خان کے وفادار ہیں جو جلد ہی ان کی رہائی کے لیے تحریک کا آغاز کریں گے۔
’سہیل آفریدی گروپ کی سیاست کا محور عمران خان ہیں‘
وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی میں پہلے خطاب میں سہیل آفریدی نے خود کو احتجاجی سیاست کا ’چمپیئن‘ قرار دیا جو تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعلیٰ بننے کے بعد احتجاجی تحریک شروع کرنے کی جانب ایک اشارہ تھا۔
سینیئر صحافی و تجزیہ کار فرزانہ علی نے کہا کہ سہیل آفریدی ماضی میں آئی ایس ایف کے صدر رہ چکے ہیں اور مراد سعید کے قریبی ساتھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سہیل مراد سعید گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور اس گروپ کی سیاست کا محور صرف عمران خان کی رہائی ہے اور کچھ نہیں۔

ان کے مطابق لگتا ہے سہیل آفریدی عمران خان کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے تاہم، جب 20 ماہ قبل علی امین گنڈاپور وزیراعلیٰ بنے تھے تو کارکنان کی ان سے بھی یہی امیدیں تھیں لیکن بعد میں وہ عملی طور پر پیچھے ہٹ گئے۔
فرزانہ علی نے کہا کہ سہیل آفریدی اگرچہ نوجوان اور پرجوش ہیں مگر وزیراعلیٰ کی ذمہ داریاں بہت بھاری ہوتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں حکومت، پارٹی اور عوامی توقعات تینوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا جو بظاہر آسان نہیں۔
کیا عمران خان کی رہائی کے لیے تحریک کا آغاز ہوگا؟
ان کا کہنا تھا کہ سہیل آفریدی ایک انتہائی مشکل وقت میں وزیراعلیٰ بنے ہیں جب وفاق میں مخالف سیاسی حکومت موجود ہے، سربراہ جیل میں ہیں اور صوبے میں آپریشنز کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سہیل آفریدی صرف پرجوش نہیں بلکہ عوامی مسائل کا بھی ادراک رکھتے ہیں اور ان کی پہلی تقریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عملی اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ سہیل آفریدی قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے پہلے وزیراعلیٰ ہیں اس لیے قبائلی عوام کی امیدیں بھی ان سے وابستہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: وزیراعلیٰ کی حلف برداری: پہلے پنجاب اور اب خیبرپختونخوا میں تاخیری حربے، فرق کیا ہے؟
فرزانہ علی نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ وہ فوراً وفاق پر حملہ آور ہوجائیں گے اور مارچ کریں گے لیکن ان پر کارکنوں کا دباؤ ضرور ہوگا کیونکہ پارٹی کے بیشتر ورکرز کی نظر میں کارکردگی کا پیمانہ صرف عمران خان کی رہائی ہے، ترقیاتی کام یا فنڈز نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فی الحال سہیل آفریدی کے لیے سب سے اہم کام کابینہ کی تشکیل، افسران کی تعیناتی اور اپنی ٹیم کا انتخاب ہے۔
’وزیراعلیٰ کی کرسی مخمل کا بستر نہیں ہوگی‘
نوجوان صحافی و تجزیہ کار محمد فہیم کا کہنا ہے کہ حکومت چلانا سہیل آفریدی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
ان کے مطابق سہیل آفریدی کے لیے وزیراعلیٰ کی کرسی مخمل کا بستر نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ثابت ہوگی کیونکہ آنے والا وقت ان کے لیے نہایت مشکل ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان جیل میں ہیں اور کارکنوں کا صبر ختم ہو چکا ہے لہٰذا اب تمام دباؤ سہیل آفریدی پر آئے گا۔

محمد فہیم کے مطابق سہیل آفریدی کو انتظامی سطح پر مشکلات کا سامنا ہوگا، مگر پارٹی کی توجہ صرف عمران خان کی رہائی پر مرکوز ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج عمران خان نے پرول پر رہائی کی خواہش ظاہر کی ہے جس سے آپ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ سہیل آفریدی سے کیا امید رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: اپنے صوبے میں جا کر آئینی ذمہ داری ادا کریں، بلاول بھٹو کا گورنر خیبرپختونخوا کو مشورہ
محمد فہیم کے مطابق سہیل آفریدی پر پارٹی اور اپنے گروپ دونوں کا دباؤ ہے اور وہ ممکنہ طور پر خان کی رہائی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ سہیل خاموش نہیں بیٹھیں گے اور احتجاج بھی کریں گے اور ممکن ہے اسلام آباد تک مارچ بھی کریں۔

فرزانہ علی اور محمد فہیم دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کی بنیادی وجہ کارکنوں کی ناراضی تھی کیونکہ وہ عمران خان کی رہائی کے لیے مؤثر اقدامات کرنے میں ناکام رہے تھے۔
سہیل آفریدی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ کارکنان کا جوش و خروش عمران خان کی رہائی سے نتھی ہے۔
مزید پڑھیے: نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی سے حلف لیا جائے: اسپیکر کے پی اسمبلی کی گورنر کو سفارش
اب دیکھنا یہ ہے کہ سہیل آفریدی کس انداز میں حکومت اور تحریک دونوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں کیونکہ یہی ان کے طرز حکمرانی کا اصل امتحان ہوگا۔














