اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا ہے کہ انسدادِ دہشتگردی ایکٹ میں حالیہ ترمیم کے بعد لاپتا افراد کا مسئلہ تقریباً حل ہو چکا ہے۔
یہ بات انہوں نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت سپریم کورٹ میں نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے اجلاس کو جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتائی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت اس مسئلے کے مستقل حل اور متاثرہ خاندانوں کی شکایات کے ازالے کے لیے ایک جامع میکینزم تیار کر رہی ہے، جو آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: اسٹوڈنٹس یونین بحالی سے متعلق درخواست پر اٹارنی جنرل کونوٹس جاری
اٹارنی جنرل نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ متاثرہ خاندانوں کی شکایات کے مؤثر ازالے کے لیے ایسا نظام وضع کیا جائے گا جو شفافیت اور جواب دہی کو یقینی بنائے گا۔
مذکورہ اجلاس میں عدلیہ میں مداخلت کے خلاف ادارہ جاتی ردعمل، ججوں کے ضابطہ اخلاق میں ترامیم، اور لاپتہ افراد کے مسئلے پر پیش رفت سمیت عدلیہ میں بیرونی مداخلت کے مسئلے پر بھی تفصیلی غور کیا گیا۔
چیف جسٹس نے تمام ہائیکورٹس کی جانب سے مداخلت کے خلاف ایس او پیز وضع کرنے کے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی آزادی اور سالمیت کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات ناگزیر ہیں۔
مزید پڑھیں: پیکا ایکٹ میں ترمیم کیخلاف پی ایف یو جے کی درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس
چیف جسٹس نے مزید بتایا کہ ججوں کے لیے ضابطہ اخلاق میں ترامیم کی تجاویز تیار کر لی گئی ہیں اور بیرونی اثر و رسوخ کا جواب دینے کے لیے ادارہ جاتی میکینزم قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
فیصلہ کیا گیا کہ کوڈ آف کنڈکٹ میں ترمیم کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے رکھا جائے گا۔
اجلاس میں شریک تمام ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان نے چیف جسٹس آف پاکستان کی تجاویز سے مکمل اتفاق کیا اور عدلیہ کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ادارہ جاتی سطح پر تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں آئینی ترمیم پر بحث، ججز کے سوالات نے سماعت کو نیا رخ دے دیا
اجلاس میں ضلعی عدلیہ سے متعلق اصلاحات پر تفصیلی غور کیا گیا، شرکا نے عدالتی نظام کو زیادہ مؤثر اور عوام دوست بنانے کے لیے مختلف پہلوؤں پر تبادلۂ خیال کیا۔
اس موقع پر ضلعی سطح پر انصاف کی فراہمی کے عمل میں بہتری لانے کے لیے کئی اہم تجاویز بھی پیش کی گئیں۔
اصلاحات کے عمل کو مربوط بنانے کے لیے تمام صوبائی چیف جسٹسز پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جو مختلف تجاویز کا جائزہ لے گی۔
اس کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے کر آئندہ اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کرے۔
اجلاس میں جیل اصلاحات سے متعلق ایکشن پلان کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
اعلامیہ کے مطابق لاہور، سندھ اور پشاور ہائیکورٹس نے ان اصلاحات کی توثیق کر دی ہے، جب کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلام آباد ماڈل جیل کی جلد تکمیل پر زور دیا ہے۔
مزید پڑھیں: ‘کیا موجودہ بینچ متعصب ہے؟’ سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت
مزید برآں، اجلاس میں عدلیہ میں مصنوعی ذہانت کے استعمال سے متعلق جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی کی جانب سے تیار کردہ گائیڈ لائنز پر بھی غور کیا گیا۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے عدالتی نظام کی کارکردگی میں بہتری آئے گی اور مقدمات کے بروقت فیصلے ممکن بن سکیں گے۔













