بھارت کی جانب سے بنگلہ دیشی مصنوعات کی زمینی راستے سے درآمد پر پابندی کے بعد بنگلہ دیش کی روایتی ساڑھی صنعت شدید بحران کا شکار ہو گئی ہے، جبکہ مغربی بنگال کے ساڑھی ساز اداروں کے کاروبار میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
بھارت کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فارن ٹریڈ نے 17 مئی 2025 کو اعلان کیا تھا کہ بنگلہ دیش سے آنے والی متعدد مصنوعات، جن میں کپاس اور جامدانی ساڑھیاں شامل ہیں، اب صرف مہاراشٹر کی نہاوا شوا بندرگاہ کے ذریعے درآمد کی جا سکیں گی۔ اس فیصلے سے نقل و حمل کے اخراجات اور ترسیل کے اوقات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:بھارت نے شیخ حسینہ کی میزبانی کرکے بنگلہ دیش سے تعلقات خراب کیے، محمد یونس
بھارت کا یہ اقدام دراصل بنگلہ دیش کی جانب سے بھارتی مصنوعات پر عائد پابندی کے جواب میں اٹھایا گیا تھا۔ ان تجارتی کشیدگیوں نے بنگلہ دیش کے ہاتھ سے بُنے کپڑوں کے شعبے کو شدید نقصان پہنچایا ہے، جو براہِ راست اور بالواسطہ طور پر تقریباً 15 لاکھ افراد کے روزگار سے وابستہ ہے۔
سراج گنج کے ساڑھی بنانیوالے محمد راشد کے مطابق بھارت ان کی مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار تھا، مگر زمینی راستہ بند ہونے کے بعد برآمدات میں تیزی سے کمی آئی ہے اور بہت سے کاریگر پیشہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
جامدانی ساڑھیاں، جو اپنی نفیس ڈیزائننگ اور اعلیٰ معیار کے باعث مشہور ہیں، سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش میں قائداعظم پر سیمنار، عظیم رہنما کی یاد تاریخی ذمہ داری قرار
ایک ساڑھی تیار کرنے میں سینکڑوں گھنٹے لگتے ہیں اور اس کی قیمت 3 لاکھ ٹکا تک پہنچ جاتی ہے، تاہم برآمدات میں کمی نے کاریگروں کو مالی بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔
بنگلہ دیش ہینڈلوم بورڈ کے رکن محمد میزان الرحمان نے کہا کہ درگا پوجا کے موقع پر اس سال ساڑھی بنانیوالوں کو معمول کے مطابق منافع حاصل نہیں ہوا۔
دوسری جانب بھارتی ریاست مغربی بنگال میں ساڑھیوں کی مانگ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، بنگلہ دیشی ساڑھیاں بھارت کی مارکیٹ کا 30 فیصد حصہ رکھتی تھیں، لیکن پابندی کے بعد مقامی فروخت میں 25 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
شانتی پور، ندیا، ہوگلی اور مرشد آباد جیسے علاقے، جو بُنائی کے مراکز ہیں، اس تبدیلی سے سب سے زیادہ مستفید ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھیں:بنگلہ دیش کے مشیر قومی سلامتی کی اعلیٰ امریکی عہدیداروں سے ملاقاتیں، دوطرفہ امور پر تبادلہ خیال
ندیا کے تاجر سنجے کرمکار کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیشی ساڑھیاں اپنے معیار اور پیکنگ کی وجہ سے مشہور تھیں، مگر پابندی کے بعد مقامی مصنوعات کی طلب بڑھ گئی ہے۔
فیشن ڈیزائنر سنتانو گوہا ٹھاکرتا کے مطابق پابندی کا وقت، جو تہوار کے سیزن سے عین پہلے آیا، بھارتی ٹیکسٹائل صنعت کے لیے نفع بخش ثابت ہوا۔
تاہم بھارت کے تمام تاجر اس تبدیلی سے خوش نہیں ہیں۔
بنارسی ساڑھیوں کے ہول سیلر پون یادو نے بتایا کہ بنگلہ دیش کو برآمدات رکنے سے ان کی فروخت میں 50 فیصد کمی آئی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ پابندی کے باوجود بنگلہ دیشی منڈیوں میں بھارتی ساڑھیاں دستیاب ہیں، میرپور بناروشی پُلّی میں وارانسی، کولکاتا اور چنئی کی ساڑھیوں کی فروخت جاری ہے۔
بیناپول حکام نے متعدد کھیپیں ضبط کی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسمگلنگ نے قانونی تجارت کی جگہ لے لی ہے۔
مزید پڑھیں:بنگلہ دیش کو پاکستان اور بھارت سے کیسا تعلق رکھنا چاہیے؟ کارکنوں نے اپنی جماعتوں کو بے نقاب کردیا
بیناپول امپورٹ ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے نائب صدر امین الحق کے مطابق زیادہ محصولات کے باعث قانونی درآمد تقریباً بند ہو گئی ہے اور ساڑھیاں غیر قانونی راستوں سے داخل ہو رہی ہیں۔
جیشور 49 بارڈر گارڈ بنگلہ دیش بٹالین کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل سیف اللہ صدیقی نے بتایا کہ سرحدی فورسز نے گزشتہ ایک سال کے دوران 10 کروڑ ٹکا مالیت کی اسمگل شدہ ملبوسات ضبط کی ہیں۔
تجارتی کشیدگی کے باعث بنگلہ دیش کی صدیوں پرانی ساڑھی بُنائی کی روایت ایک غیر یقینی مستقبل سے دوچار ہے، جبکہ مغربی بنگال کی ٹیکسٹائل صنعت کو اس صورتِ حال سے خاطر خواہ فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔