بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش سمیت کئی بی جے پی زیرِ حکومت ریاستوں میں درجنوں مسلمانوں پر محض ’I love Muhammad‘ کہنے یا یہ عبارت تحریر کرنے پر مقدمات درج کیے گئے ہیں، جس کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں نے حکومتی اقدامات کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔
واقعہ کا آغاز کانپور کے علاقے سید نگر سے ہوا، جہاں 4 ستمبر کو عیدِ میلادالنبی ﷺ کے موقع پر ایک روشن بورڈ پر ’I love Muhammad‘ لکھا گیا۔ کچھ ہندو رہائشیوں کے اعتراض پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بورڈ ہٹا دیا اور 9 مسلم افراد سمیت درجنوں کے خلاف مقدمات درج کیے۔
مزید پڑھیں: مودی اور آر ایس ایس کا گٹھ جوڑ انتہا پسندی کی جڑ، ریاستی وزیر کو قتل کی دھمکیاں
چند روز بعد یہی معاملہ بریلی میں شدت اختیار کر گیا۔ پولیس نے مذہبی رہنما مولانا توقیر رضا خان سمیت متعدد مسلمانوں پر ’فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگاڑنے‘ کے الزامات لگائے۔ احتجاج کے دوران پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا، درجنوں کو گرفتار کیا اور کچھ افراد کی جائیدادوں کو بلڈوزر کارروائی کے تحت مسمار کر دیا۔
حقوقِ انسانی تنظیموں نے ان اقدامات کو ’غیر قانونی اور امتیازی سلوک‘ قرار دیا ہے۔ ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (APCR) کے مطابق اس مہم سے متعلق ملک بھر میں 22 ایف آئی آرز درج کی گئیں، جن میں 2,500 سے زائد افراد کے نام شامل ہیں جبکہ 89 افراد کو بریلی میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔
مزید پڑھیں: مودی حکومت کے جبر کے خلاف لداخ میں عوامی بغاوت شدت اختیار کر گئی
اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے واقعات کو ’سماجی ہم آہنگی بگاڑنے کی منظم کوشش‘ قرار دیا، جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر مذہبی آزادی دبانے اور مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر انصاف (bulldozer justice) کے ذریعے انتقامی کارروائی کا الزام لگایا۔
سماجوادی پارٹی کے رہنما ماتا پرساد پانڈے نے کہا کہ یہ حکومت جمہوریت کی بات کرتی ہے، مگر عمل اس کے بالکل برعکس کرتی ہے۔
دوسری جانب شہری و سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ ہندو برادری کو اپنے مذہبی نعروں کی مکمل آزادی حاصل ہے، مگر مسلمانوں کو محبتِ رسول ﷺ کے اظہار پر بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے جو ملک کے سیکولر آئین اور آئینی مذہبی آزادی کے منافی ہے۔