پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اور امریکا میں سابق سفیر اعزاز احمد چوہدری نے خبردار کیا ہے کہ افغان طالبان قابل اعتبار نہیں ہیں لہٰذا پاکستان کو چاہیے کہ ان کے ساتھ مذاکرات کے دوران اپنی سرحد کی حفاظت پر بھی مکمل توجہ رکھے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان پر افغانستان میں رجیم چینج کی کوششوں کا الزام بے بنیاد ہے: وزیر دفاع خواجہ آصف
وی نیوز ایکسکلیوسیو میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان کا ماضی کے معاہدوں کا ریکارڈ تسلی بخش نہیں رہا۔ انہوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سنہ 2020 میں طالبان نے امریکا کے ساتھ معاہدہ کیا مگر اس کی بڑی شقوں پر عمل نہیں کیا۔
اعزاز چوہدری نے کہا کہ خواہ تجارت ہو یا مہاجرین کی میزبانی پاکستان نے برسوں تک افغانستان کے ساتھ فراغ دلی دکھائی لیکن اب ان پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو بطور خودمختار ملک تسلیم کرنے کے باوجود پاکستان کے خدشات بجا ہیں کیونکہ بھارت کے اثر و رسوخ نے دونوں ممالک کے درمیان بدگمانی پیدا کی ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستان نے قطر اور ترکیہ کی ضمانت پر سیز فائر کیا، طالبان اب ٹھیک ہوجائیں گے، سابق سفیر طارق رشید
تاریخی تناظر بیان کرتے ہوئے اعزاز چوہدری نے بتایا کہ سنہ 1893 میں عبدالرحمان خان نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کیا تھا اور ان کے بعد آنے والی افغان حکومتوں نے بھی اس فیصلے کی توثیق کی مگر وقت کے ساتھ افغانستان میں ایک غلط فہمی پیدا کر دی گئی کہ یہ علاقہ ان کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی غلط فہمی نے دونوں ممالک کے تعلقات کو نقصان پہنچایا۔
’افغانستان نے بھارت سے ہمیشہ اچھے تعلقات رکھے‘
ان کے مطابق ماضی سے اب تک افغانستان کی حکومتیں بھارت کے ساتھ قریبی روابط رکھتی آئی ہیں اور بھارت نے ہمیشہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کی۔ انہوں نے جعفر ایکسپریس حملے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس سانحے میں ملوث افراد کے بھارت سے روابط تھے۔
اعزاز چوہدری نے واضح کیا کہ بھارت اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بلوچستان میں بدامنی پھیلانے میں شامل رہی ہیں جس کے شواہد مختلف عالمی رپورٹس میں موجود ہیں۔
چک ہیگل اور ابی ناشت پالی وال کی تحریروں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت کئی سالوں سے افغانستان کے ذریعے پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرتا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: عمران خان کے کہنے پر دہشتگردوں سے مذاکرات نہیں کریں گے، وزیر دفاع خواجہ آصف
اعزاز چوہدری نے افغان حکومت کو دہشتگردی کے مسئلے میں ’پارٹ آف دی پرابلم‘ قرار دیا۔
’افغان طالبان ٹی ٹی پی کے داعش میں شامل ہوجانے کے ڈر سے کوئی کارروائی نہیں کرتے‘
ان کے مطابق طالبان انتظامیہ کے پاس صلاحیت کی بھی کمی ہے اور ارادے کی بھی اس لیے وہ ٹی ٹی پی کے خلاف سختی سے کارروائی نہیں کرتی۔ ان کے خیال میں طالبان کو خدشہ ہے کہ اگر وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں گے تو وہ داعش خراسان میں شامل ہو جائیں گے۔
اعزاز چوہدری نے کہا کہ پاکستان کو دو طرفہ حکمت عملی اپنانی ہوگی، ایک طرف سرحدی تحفظ اور دوسری طرف اقتصادی، تعلیمی اور سفارتی معاملات پر محتاط نظر۔
ان کے مطابق دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی نئی حکمت عملی پہلے سے زیادہ مؤثر ہے کیونکہ اب ریاست نے معذرت خواہانہ رویہ چھوڑ کر سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔
اعزاز چوہدری نے کہا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور جیسے سانحات نے یہ ثابت کر دیا کہ دہشتگردوں کے ساتھ کسی نرمی کی گنجائش نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’جب تک آپ طاقت کا استعمال نہیں کرتے ڈپلومیسی کامیاب نہیں ہوتی‘۔
’پاک امریکا تعلقات ہمیشہ مفادات کی بنیاد پر رہے‘
امریکا کے ساتھ تعلقات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاک امریکا تعلقات ہمیشہ ٹرانزیکشنل نوعیت کے رہے ہیں، یعنی مفادات کی بنیاد پر۔
انہوں نے وضاحت کی کہ جب بھی دونوں ممالک کے مفادات ملے، تعلقات بہتر ہوئے۔ تاہم، بھارت کی حالیہ پالیسیوں نے امریکا کے لیے بھی خدشات پیدا کیے ہیں جس کی وجہ سے واشنگٹن نے دوبارہ پاکستان کی طرف نرم رویہ اختیار کیا ہے۔
اعزاز چوہدری نے کہا کہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات گہرے، پائیدار اور باہمی احترام پر مبنی ہیں۔
’چین نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا‘
ان کا کہنا تھا کہ چین نے ہمیشہ پاکستان کی خودمختاری کا احترام کیا اور مشکل وقت میں سرمایہ کاری کی۔
ان کے مطابق پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی صرف اپنے قومی اور اقتصادی مفادات کی بنیاد پر تشکیل دینی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے: پاک افغان معاہدہ: دہشتگردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ کہنے والوں کا ٹی ٹی پی کی حمایت ترک کرنے کا وعدہ
افغان مہاجرین کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اعزاز چوہدری نے کہا کہ سنہ 1980 کی دہائی میں پاکستان نے فراخ دلی دکھاتے ہوئے لاکھوں افغانوں کو پناہ دی لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ان پالیسیوں کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے۔
ان کے مطابق افغانوں کو ملک بھر میں آزادانہ پھیلنے دینا ایک بڑی انتظامی غلطی تھی۔
’افغان طالبان حکومت نہیں رجیم کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں‘
اعزاز چوہدری نے کہا کہ افغان طالبان ’حکومت‘کے طور پر نہیں بلکہ ’رجیم‘ کے طور پر برتاؤ کر رہے ہیں اور جب تک وہ بین الاقوامی ذمہ داریوں کو قبول نہیں کرتے خطے میں امن ممکن نہیں۔
مزید پڑھیں: افغانستان سے دہشتگردی کا سلسلہ فی الفور بند ہوگا، قطر اور ترکیہ کے مشکور ہیں، خواجہ آصف
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مضبوط، متوازن اور حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی اختیار کرے کیونکہ یہی قومی سلامتی اور علاقائی استحکام کی ضمانت ہے۔













