سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں کا مسئلہ دہائیوں پرانا ہے۔ فوجی و پولیس آپریشنز کے نتیجے میں ماضی میں بھی ڈاکوؤں کا خاتمہ، گرفتاریاں اور ہتھیار ڈالنے کے واقعات ہوتے رہے ہیں تاہم گزشتہ روز سندھ حکومت کی جانب سے منظور کی گئی ایک باضابطہ سرینڈر پالیسی کے تحت ڈاکوؤں کا ایک ساتھ بڑی تعداد میں ہتھیار ڈالنا حالیہ تاریخ کا ایک نمایاں اور منظم واقعہ ہے۔
شکارپور سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی مکیش رپیتا نے اس حوالے سے بتایا کہ یہ ایک بہادرانہ اور غیر روایتی قدم جو برسوں سے جاری آپریشنز کے بجائے مذاکرات اور سیاسی تدبیر کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ صرف پولیس اور فوجی کارروائیاں وقتی امن لاتی ہیں، جبکہ دیرپا حل کے لیے سماجی و معاشی پہلوؤں پر توجہ دینا ضروری ہے۔ ہتھیار ڈالنے کے بعد ڈاکوؤں کے بچوں کو تعلیم، صحت اور فنی تربیت دینے کے اعلانات کو مثبت دیکھا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے شکارپور میں امن کی بحالی، 71 ڈاکوؤں کا سرینڈر، 209 ہتھیار پولیس کے حوالے
پالیسی میں ہتھیار ڈالنے والے ڈاکوؤں کے اہل خانہ کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے، جو ڈاکوؤں کو ہتھیار ڈالنے پر راضی کرنے میں ایک اہم عنصر ثابت ہوا ہے۔
خیر پور کے سینئیر صحافی یاسر فاروقی کا کہنا ہے کہ حکومت کو یہ بات واضح رکھنی چاہیے کہ یہ پالیسی عام معافی نہیں ہے۔ ہتھیار ڈالنے والے ڈاکوؤں کو قانون کا سامنا کرنا ہوگا اور ان پر مقدمات چلائے جائیں گے۔ اس شرط پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ضروری ہے تاکہ قانون کی بالادستی قائم رہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کچے کے ڈاکو راج کی اصل جڑ جاگیردارانہ سیاسی گروہوں اور بااثر شخصیات کی سرپرستی ہے۔ جب تک اس سہولت کاری کے گٹھ جوڑ کو ختم نہیں کیا جاتا، تب تک ڈاکوؤں کا مسئلہ دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے سندھ: کچے کے ڈاکوؤں کو ہتھیار ڈالنے کی پیشکش، نئی پالیسی ہے کیا؟
یاسر فاروقی کے مطابق کہیں ماضی کی طرح یہ پالیسی بھی صرف ایک اعلان نہ رہ جائے اور بعد میں اس پر عملدرآمد کمزور پڑ جائے۔ ڈاکوؤں کی ہتھیار ڈالنے کی رضامندی کا ایک بڑا سبب حالیہ سیکیورٹی آپریشنز کا شدید دباؤ اور بعض اوقات سیلاب جیسے قدرتی آفت کی صورتحال بھی ہوتی ہے، جو ان کے ٹھکانوں کو متاثر کرتی ہے۔ ریاست کو یہ وقت پائیدار امن کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
سندھ کے کچے کے ڈاکوؤں کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے حالیہ واقعات سے پہلے بھی اس نوعیت کی پیش رفت ہوتی رہی ہے۔ اگرچہ حالیہ ہتھیار ڈالنے کا عمل سندھ حکومت کی ایک باضابطہ سرینڈر پالیسی کے تحت ہو رہا ہے جو ایک اہم قدم ہے۔
اہم سابقہ واقعات اور آپریشنز
1992سے 1994 کے دوران آپریشن بلیو فاکس ہوا۔ وفاقی حکومت نے پاکستان آرمی کو سندھ میں، بشمول کچے کے علاقوں کے ڈاکوؤں کے خلاف، پولیس کی مدد کے لیے تعینات کیا۔

اس آپریشن کے نتیجے میں سینکڑوں ڈاکوؤں کا خاتمہ ہوا اور جنوبی سندھ کے کئی اضلاع میں جرائم کی شرح میں نمایاں کمی آئی۔ اس آپریشن کے دوران بھی کچھ ڈاکوؤں نے ہتھیار ڈالے تھے۔
1980 اور 1990 کی دہائیوں میں سندھ پولیس نے ڈاکوؤں کے خلاف کئی بڑے آپریشن کیے، جن میں کئی بدنام زمانہ گروہوں کو ختم کیا گیا اور کچھ ڈاکوؤں کو گرفتار کیا گیا۔ اگرچہ یہ باضابطہ سرینڈر پالیسی نہیں تھی، لیکن شدید آپریشنز کے دباؤ میں انفرادی یا چھوٹے گروہوں کی جانب سے ہتھیار ڈالنے یا قانون کے سامنے خود کو پیش کرنے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کچے کے ڈاکو پکڑنے کے لیے تینوں صوبوں سے بیک وقت کارروائی کا فیصلہ
پنجاب میں چھوٹو گینگ کا سرینڈر اگرچہ سندھ کا واقعہ نہیں ہے، لیکن پڑوسی صوبے پنجاب کے کچے کے علاقے راجن پور میں 2016ء میں مشہور چھوٹو گینگ اور اس کے ساتھیوں نے فوجی آپریشن کے بعد مسلح افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ یہ پورے خطے میں ڈاکوؤں کے بڑے گروہ کے باضابطہ ہتھیار ڈالنے کی ایک بڑی مثال تھی۔ اس واقعے کا اثر سندھ کے کچے کے علاقوں پر بھی پڑا۔
سندھ کابینہ نے اکتوبر 2025ء میں سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کے کچے کے ڈاکوؤں کے لیے ایک باقاعدہ سرینڈر پالیسی کی منظوری دی۔ اس پالیسی کے تحت اکتوبر 2025 میں ایک بڑی تقریب میں 50 سے زائد ڈاکوؤں نے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے پر رضامندی ظاہر کی۔














