معروف امریکی یونیورسٹی ہارورڈ کے انڈرگریجویٹ اسکول میں 2029 کے داخلے کے لیے ہسپانوی اور سیاہ فام طلبا کی تعداد میں کمی جبکہ ایشیائی طلبا کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ہارورڈ کے انڈرگریجویٹ اسکول کی جانب سے جاری کیے گئے تازہ اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ 2029ء کی کلاس میں سیاہ فام طلبا کا 11.5 فیصد جبکہ ہسپانوی طلبا کا تناسب 11 فیصد ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہارورڈ یونیورسٹی نے فنڈز منجمد کیے جانے پر امریکی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کردیا
میساچوسٹس میں قائم ہارورڈ کالج کے مطابق، مذکورہ تعلیمی سال کے لیے ایشیائی نژاد امریکی طلبا کا تناسب 41 فیصد ہے۔
The percentage of Harvard’s incoming class that is Hispanic fell from 16% to 11%, while the share of Black students declined from 14% to 11.5%.
However, the proportion of Asian students rose from 37% to 41%.
Follow: @AFpost pic.twitter.com/uhc3GrpOVf
— AF Post (@AFpost) October 23, 2025
تاہم یونیورسٹی نے سفید فام طلبا کے اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔
یہ اعداد و شمار امریکی سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کے بعد جاری کیے گئے ہیں جس میں عدالت نے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ’افرمیٹو ایکشن‘ یعنی نسلی ترجیح پر مبنی داخلہ پالیسی کو کالعدم قرار دیا تھا۔
مزید پڑھیں: امریکی عدالت نے فلسطین کے حامی اساتذہ و طلبہ کی ملک بدری کو خلاف آئین قرار دیدیا
سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل ہارورڈ میں سیاہ فام طلبا کی شرح تقریباً 18 فیصد تھی۔ تاہم فیصلے کے بعد ہسپانوی طلبا کی تعداد میں کچھ اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، ہارورڈ کی 2029 کی کلاس کے تقریباً 21 فیصد طلبا فیڈرل پیل گرانٹس کے اہل ہیں، جبکہ 45 فیصد طلبا ٹیوشن فیس سے مکمل طور پر مستثنیٰ ہیں۔

دوسری جانب 26 فیصد طلبا کو مکمل طور پر مفت تعلیم دی جا رہی ہے۔
اس سال کے اوائل میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے محکمہ تعلیم کو ہدایت دی تھی کہ وہ وفاقی فنڈ حاصل کرنے والے تعلیمی اداروں کو مطلع کرے کہ وہ اسکولوں سے متعلق پالیسیوں میں ’افرمیٹو ایکشن‘ کے اصولوں کا خاتمہ کریں۔
مزید پڑھیں: اسرائیل مخالف احتجاج، کیسے امریکی یونیورسٹیوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے؟
دوسری جانب، ییل یونیورسٹی کے پروفیسر اور ’افرمیٹو ایکشن‘ کی تاریخ کے ماہر جَسٹن ڈرائیور نے اس رجحان کو ’سپریم کورٹ کے تباہ کن فیصلے‘ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
’مجھے خدشہ ہے کہ ہارورڈ میں گزشتہ 2 برسوں کے دوران طلبا کی نسلی تنوع میں کمی امریکی اعلیٰ تعلیم کے مستقبل کی ایک غیر خوشگوار جھلک پیش کر رہی ہے۔‘














