سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اہم فیصلے میں ماورائے عدالت حراستی قتل کو ’فساد فی الارض‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والا اہلکار اگر شہری کا قاتل بن جائے تو اسے سب سے سخت سزا ملنی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:اسلام آباد میں پولیس مقابلہ، ڈائریکٹر لینڈ احسان الٰہی قتل کیس کے 2 ملزمان ہلاک
یہ فیصلہ بلوچستان کے علاقے تربت میں ایف سی اہلکار کے ہاتھوں ایک شہری حیات کے قتل سے متعلق کیس میں سنایا گیا، جس میں عدالت نے مجرم شادی اللہ کی سزائے موت کے خلاف اپیل خارج کر دی۔ فیصلہ جسٹس اطہر من اللہ نے تحریر کیا۔
تربت میں ماں باپ کے سامنے بہیمانہ قتل
عدالتی فیصلے کے مطابق ایف سی اہلکار نے تربت میں ماں باپ کے سامنے نوجوان حیات کو بالوں سے گھسیٹ کر فائرنگ سے قتل کیا۔

مجرم نے اپنی سرکاری بندوق سے مقتول کی پیٹھ میں 8 گولیاں ماریں، جبکہ والدین کی دہائیوں کے باوجود فائرنگ جاری رکھی گئی۔
ماورائے عدالت قتل آئین کی خلاف ورزی قرار
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ماورائے عدالت قتل آئین اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ایف سی کی ذمہ داری عوام کا تحفظ ہے، شہریوں پر گولیاں چلانا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کراچی: منگھوپیر کی رہائشی کالونی میں پولیس مقابلہ، 5 ڈاکو ہلاک
غصے کا عذر ناقابل قبول
عدالت نے مجرم کے اس مؤقف کو مسترد کر دیا کہ وہ دھماکے میں ساتھیوں کے زخمی ہونے پر غصے میں تھا۔ فیصلے کے مطابق ایسا عذر قابل قبول نہیں کیونکہ ایسے واقعات میں نرمی یا ہمدردی معاشرے میں لاقانونیت کو بڑھاتی ہے۔
جرم کے ناقابل تردید شواہد
فیصلے میں کہا گیا کہ مجرم کے اعترافی بیان اور فرانزک شواہد سے جرم ثابت ہوا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ایسے مجرم نہ صرف معاشرے بلکہ ریاستی اداروں کے لیے بھی خطرہ ہیں۔

تربت واقعہ 2020
عدالتی ریکارڈ کے مطابق واقعہ 2020 میں اس وقت پیش آیا جب ایف سی قافلے پر آئی ای ڈی حملہ ہوا۔ اسی دوران مقتول حیات اپنے والدین کو کھانا دینے کھیتوں کی طرف جا رہا تھا۔ دھماکا سن کر بھاگنے والے حیات کو ایف سی اہلکار نے حراست میں لیا اور موقع پر ہی گولیاں مار کر قتل کر دیا۔
اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی توثیق برقرار
سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ کی جانب سے دی گئی سزائے موت کے فیصلوں کی توثیق برقرار رکھی اور قرار دیا کہ ایف سی اہلکار شادی اللہ کا جرم بزدلانہ، بہیمانہ اور عوامی ضمیر کو جھنجھوڑنے والا ہے۔

یہ فیصلہ نہ صرف انصاف کی فراہمی کا ایک مضبوط پیغام ہے بلکہ ماورائے عدالت کارروائیوں کے خلاف ریاستی مؤقف کو بھی مزید واضح کرتا ہے۔














