حکومتِ پاکستان کی جانب سے بینک ٹرانزیکشنز پر اضافی ٹیکس نافذ کیے جانے اور بینکوں کی طرف سے اپنی سروس فیسوں میں اضافہ کرنے کے بعد صارفین میں شدید تشویش اور غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔
تازہ مالیاتی اقدامات کے تحت نان فائلرز اب بینک سے رقم نکالنے پر 0.8 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس ادا کریں گے، جبکہ بینکوں نے بھی اے ٹی ایم کارڈ، ایس ایم ایس الرٹ سروس، اور دوسری بینکوں کے اے ٹی ایم کے استعمال پر چارجز بڑھا دیے ہیں۔ حیران کن طور پر، ان فیسوں میں فائلرز اور نان فائلرز کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: نان ہوسٹ اے ٹی ایم: ہر ٹرانزیکشن پر کتنے روپے کاٹے جائیں گے؟
رپورٹس کے مطابق دوسری بینک کے اے ٹی ایم کے استعمال پر لی جانے والی فیس میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد 50 ہزار روپے نکالنے پر اب 80 روپے تک چارجز ادا کرنا ہوں گے۔ اے ٹی ایم کارڈ کی سالانہ فیس میں بھی 700 روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے، جبکہ ایس ایم ایس الرٹ سروس کی فیس 1200 روپے سے بڑھا کر 2000 روپے کر دی گئی ہے۔
مزید برآں، چیک کے ذریعے کی جانے والی نقد رقم کی نکاسی پر بھی اب ٹیکس عائد ہوگا، جس کے تحت نان فائلرز کو 20 ہزار روپے نکالنے پر 522 روپے تک ودہولڈنگ ٹیکس دینا پڑے گا۔
بینکوں نے رقم نکالنے کی حدیں بھی مقرر کر دی ہیں۔ عام ڈیبٹ کارڈ ہولڈرز روزانہ 25 ہزار سے 50 ہزار روپے نکال سکتے ہیں، پریمیئم کارڈ ہولڈرز کے لیے حد 5 لاکھ روپے روزانہ ہے، جبکہ غیر ملکی ڈیبٹ کارڈ ہولڈرز 200 سے 500 امریکی ڈالر روزانہ نکال سکتے ہیں۔ تاہم 50 ہزار روپے سے زائد روزانہ نکالنے پر خودکار طور پر ٹیکس کٹوتی ہو جائے گی۔
یہ بھی پڑھیے: اے ٹی ایم کارڈز کے اجرا سے متعلق اسٹیٹ بینک کو کیا نئی ہدایات دی گئی ہیں؟
بین الاقوامی اے ٹی ایم استعمال کرنے والوں سے اب یا تو فیصدی بنیادوں پر یا بینک کی مقرر کردہ فکسڈ فیس کے مطابق رقم وصول کی جائے گی۔
ٹیکس اور بینک فیسوں میں یکساں اضافے کے باعث بینک صارفین اور عملے کے درمیان تنازعات میں اضافہ ہو گیا ہے، جس کے بعد بینکوں نے ون لنک انتظامیہ سے فیسوں کے شیڈول پر نظرِ ثانی کی درخواست کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بلند چارجز عوام کو بینکنگ نظام سے بدظن کر کے نقد معیشت کے فروغ کا باعث بن سکتے ہیں۔














