الیکٹرک گاڑیاں، جنگی طیارے اور ٹیبلٹ کمپیوٹر بظاہر 3 مختلف چیزیں ہیں لیکن ان سب میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہیں کمیاب ارضیاتی معدنیات یعنی ریئر ارتھ منرلز۔
یہ بھی پڑھیں: چین کی نایاب معدنیات کی برآمدات پر نئی پابندیاں، امریکا برہم
ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ وہ عناصر ہیں جن کی مانگ دنیا بھر میں تیزی سے بڑھ رہی ہے مگر ان کی دستیابی محدود اور مخصوص علاقوں تک محدود ہے۔
یہ 17 کیمیائی عناصر پر مشتمل ایک ایسا گروپ ہے جو جدید ٹیکنالوجی کی تقریباً ہر اہم ایجاد میں استعمال ہوتے ہیں خواہ وہ اسمارٹ فونز ہوں یا ایل ای ڈی ٹی وی، ڈیجیٹل کیمرے یا فلیٹ اسکرینز۔
یہی عناصر مستقل مقناطیسوں کی تیاری میں بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں جو الیکٹرک گاڑیوں اور ونڈ ٹربائنز جیسی ماحول دوست ٹیکنالوجیز کے لیے ناگزیر ہیں۔
طاقتور مگر ہلکے مقناطیس
کمیاب ارضیاتی عناصر سے تیار کردہ مستقل مقناطیس عام مقناطیسوں کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور، ہلکے اور دیرپا ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جدید الیکٹرک موٹرز، طیاروں کے پرزے اور ہوا سے بجلی بنانے والے ٹربائنز انہی مقناطیسوں پر انحصار کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکا کے پاکستان میں اہم معدنیات پر مفاہمت کی یادداشت پر دستخط
یہ مقناطیس دہائیوں تک اپنی مقناطیسی طاقت برقرار رکھتے ہیں جس سے ان کی صنعتی افادیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
ان عناصر کی بڑھتی ہوئی اسٹریٹیجک اہمیت
کمیاب ارضیاتی عناصر کا استعمال اب صرف صارفین کی مصنوعات تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ دفاعی ٹیکنالوجی میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں جیسے جنگی طیارے، آبدوزیں اور میزائل سسٹمز۔
ان میں سے 2 عناصر نیوڈیمیم اور پراسیوڈیمیم مستقل مقناطیسوں کی تیاری کے لیے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی فی کلو قیمت تقریباً 55 یورو (62 امریکی ڈالر) ہے جبکہ ٹیربیم کی قیمت 850 یورو فی کلوگرام تک پہنچ سکتی ہے۔
ہر جگہ موجود لیکن پھر بھی کمیاب
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ عناصر حقیقت میں اتنے کمیاب نہیں جتنے ان کا نام ظاہر کرتا ہے۔
یہ زمین کی پرت میں معمولی مقدار میں تقریباً ہر جگہ پائے جاتے ہیں مگر قابل استعمال مقدار میں ذخائر صرف چند مخصوص خطوں میں ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکا نے چینی دباؤ سے نکلنے کے لیے میانمار کی نایاب معدنیات پر نظریں گاڑھ لیں
اصل چیلنج ان ذخائر کو تلاش کرنا، نکالنا اور پھر اقتصادی لحاظ سے فائدہ مند طریقے سے استعمال میں لانا ہے۔
چین کی عالمی اجارہ داری
امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق دنیا میں 70 فیصد سے زیادہ کمیاب ارضیاتی عناصر چین سے نکالے جاتے ہیں۔
ان میں سب سے بڑا ذخیرہ شمالی چین کی بایان اوبو کان میں موجود ہے۔
چین کے پاس اتنے بڑے ذخائر ہیں کہ وہ آسٹریلیا کے ماؤنٹ ویلڈ اور گرین لینڈ کے کوانے فیلڈ کے مجموعے سے بھی زیادہ ہیں۔
نہ صرف نکالنے کا عمل بلکہ پروسیسنگ، علیحدگی اور خالص دھات کی تیاری بھی زیادہ تر چین میں ہی کی جاتی ہے۔
یوں چین نہ صرف ان عناصر کا سب سے بڑا سپلائر ہے بلکہ مستقل مقناطیسوں کا سب سے بڑا تیارکنندہ بھی بن چکا ہے۔
یورپی یونین اور مغربی ممالک کا انحصار
یورپی یونین کو کمیاب ارضیاتی عناصر کی اپنی ضرورت کا 80 سے 100 فیصد تک حصہ چین سے حاصل کرنا پڑتا ہے۔
خصوصاً بھاری عناصر کی صورت میں تو یورپ کا انحصار مکمل طور پر چین پر ہے کیونکہ ان کی علیحدگی اور صفائی کا عمل نہایت پیچیدہ اور مہنگا ہے۔
چین کی سپلائی بند ہوئی تو؟
اگر چین نے کبھی ان عناصر کی سپلائی محدود کر دی تو مغربی ممالک کے لیے یہ ایک سنگین صنعتی بحران بن سکتا ہے۔
اسی خدشے کے پیشِ نظر یورپی یونین اور امریکا دونوں نے اپنی داخلی سپلائی چین مضبوط بنانے پر کام شروع کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: امریکا اور یوکرین کے درمیان معدنیات کے معاہدے پر دستخط
یورپی یونین نے سنہ 2024 میں ’کریٹیکل را مٹیریلز ایکٹ‘ منظور کیا جس کے تحت سنہ 2030 تک ایسے اہم معدنیات کی پیداوار کا ایک بڑا حصہ یورپ کے اندر ہی ممکن بنانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
یونین اپنے قریبی اتحادیوں جیسے ناروے کے ساتھ بھی تعاون بڑھانا چاہتی ہے۔
اسی طرح امریکی محکمہ دفاع نے سنہ 2020 سے ملکی کمپنیوں میں بھاری سرمایہ کاری شروع کر رکھی ہے تاکہ سنہ 2027 تک ’مائن ٹو میگنٹ‘ یعنی کان کنی سے لے کر مقناطیس کی تیاری تک کا مکمل عمل امریکا میں ہی ممکن بنایا جا سکے۔
کمیاب ارضیاتی عناصر جدید دنیا کی ٹیکنالوجی، توانائی اور دفاع تینوں ستونوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: اٹک میں سونے کے ذخائر کی نیلامی جلد، 2 مزید مقامات پر ذخائر ملے ہیں، وزیر معدنیات پنجاب
چاہے معاملہ الیکٹرک گاڑیوں کا ہو یا اسمارٹ فونز کی یا خلائی ٹیکنالوجی کا ان عناصر کے بغیر ترقی کا تصور ممکن نہیں۔














