سیاست میں ہمیشہ اگلے 48 گھنٹے اہم ہوتے ہیں۔ اور الحمدللہ وطن عزیز میں تو سنہ 1947 سے 48 گھنٹے اہم ہیں۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جب 1947 سے لے کر 2023 تک ملک میں نہ سیاسی ماحول بدلا نہ، سیاست دانوں کی سیاست دانی بڑی ہوئی، نہ تجربے کامیاب ہوئے، نہ تجربے دانوں کی تجربے دانی ٹھنڈی ہوئی، تو پھر یہ عوام کو کس فقیر کی بددعا ہے کہ وہ ہر بار اتنی ہی جذباتی ہو کر گھنگرو توڑنے پر آ جاتی ہے۔
نازک موڑ سنہ 47 میں بھی تھا، 2023 میں بھی ہے۔ یا تو موڑ بڑا ہے، یا ہم گول چکر میں گھوم رہے ہیں۔ آدھا ملک گنوا چکے، باقی آدھے کو تجربوں نے ادھ موا کر رکھا ہے۔
پاکستان میں اقتدار کا ایک فارمولہ ہے۔ آپ اسے نازک موڑ فارمولہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کی ترتیب کچھ یوں ہے ۔
- حکومت آتی ہے
- معاشی حالات قابو سے باہر ہیں، پچھلا لیڈر کہتا ہے یہ سازش ہے
- ساری تباہی کے ذمہ دار سابق لیڈر قرار۔ سابق لیڈر جیل میں ۔لیڈر کےبغل بچے لوٹا۔
- حکومت کو عالمی طاقتوں/آئی ایم ایف کا ساتھ درکار
- ایک پیج، ایک پیج والا ڈائیلاگ
- ’عالمی‘ والوں کے ہاں سے پراکسی چھیڑی جاتی ہے۔ حکومت اس پر پہلے اپوزیشن سے لڑتی ہے، پھر میڈیا سے (ترتیب حسبِ ذائقہ، اس مقصد کے لیے ایک بد زبان ترجمان ہو تو افضل ہے)
- عوامی مقبولیت کے لیے غلط معاشی فیصلوں سے فیصلہ سازوں سے حالات خراب/ عوام کے لیے مذہبی ٹچ
- فیصلہ ساز نیا تجربہ ڈیزائن کرتے ہیں
- گھر کا پلا اعلیٰ کوالٹی کا۔ بچہ جمورا ٹائپ، نیا لیڈر مع بغل بچہ پر کام شروع
- نیا لیڈر مسیحا بن جاتا ہے ، پچھلا تجربہ گلے کو آجاتا ہے
- حکومت کو گھر بھیجا جاتا ہے
- بندے توڑے جاتے ہیں اور نئے لیڈر کو حکومت دی جاتی ہے
- Back to Step 1
ان 13 اسٹیپس میں 16 مہینے سے لے کر تین سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ اس سارے عمل میں بغل بچے محفوظ رہتے ہیں کیونکہ یہ پیکیج میں آتے ہیں۔ اگرکسی شخص کے پاس دیدہ کا بینا ہو تو وہ لیڈر کے دو جملوں میں جان سکتا ہے کہ لیڈر اس وقت کس منزل پر ہے اور اس کا اگلا مقام کہاں ہوگا۔
آپ سنہ 1955 میں فیروز خان نون کے لیے بنائی گئی پاکستان ریپبلیکن پارٹی سے لے کرْ، مسلم لیگ ’الف‘ سے لے کر ’ے‘ تک، پیٹریاٹ سے لے کر حقیقی تک، جس پارٹی کو دیکھیں گے ، آپ کو جمہوریت کا حسن کیمرے میں ہاتھ ہلاتا نظر آئے گا۔
ایسا نہیں ہے کے اس ڈرامے بازی میں ارتقا نہیں ہوا۔ سابقہ دور حکومت میں ہم نے اس ڈرامے میں ایک نیا کردار ’یوٹیوبر‘ کو شامل کیا گیا۔ یوٹیوبر، حکومت، اسٹیبلشمنٹ، ایک ’تری مورتی‘ کا درجہ پا گئے تھے۔ یہ وحدت الشہود کا عملی تجربہ تھا جس نے مخالفوں کی وہ ماں بہن، باپ بھائی کی کہ کئی لوگوں کے بزرگ اپنی قبروں میں سجدہ زیر ہو گئے کہ شکر ہے کہ اس پاگل پن کو دیکھنے سے پہلے ہی ہم اٹھائے گئے۔
بلا شبہ گذشتہ حکومت کا دور میڈیا کے لیے سخت ترین دور رہا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس دور میں معجزات نہیں ہوئے۔ اس سے بڑا معجزہ کیا ہو گا کہ میاں نواز شریف کی لندن روانگی پر خان صاحب نے کہا کہ چونکہ شیریں مزاری کیبنٹ میں رو پڑی تھی، اس لیے نواز کو جانے دیا۔
شیریں نے کہا میں کبھی نہیں روئی کسی میٹنگ میں۔ اسد عمر ٹی وی پر کہتے پائے گئے کہ یہ فیصلہ خالصتاً خان صاحب کا تھا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ میاں صاحب کو باجوہ نے بھجوایا۔ علما اس کی تعبیر یہ کرتے ہیں کہ یہ اس دور کا قصہ ہے جب سیم پیج حلول کے مقام پر تھا اس لیے اس پہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ کو یہ حلولی کیفیت سابقہ دور میں کئی معاملات میں نظر آئے گی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سارا قصہ اتنا ہی سادہ ہے تو عوام کیوں فرطِ جذبات میں کولہے پیٹ رہی ہے، وہ بھی اپنے۔ کیوں ہمارے عقیقے، ختم، عیدیں ، شادی، جنازہ، سوئم، چہلم، گھر، دفتر، بازار میں سوائے سیاست کے کوئی اور موضوع ہی نہیں؟
اس کے 2 جواب ہیں۔ ایک، حادثہ : بھٹو اور بے نظیر کی صورت میں 2 حادثے ہو چکے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ اگر لیڈر اپنی عوام کو دیکھتے ہوئے المدد پکارے گا تو عوام کا زخم تو ہرا ہوگا۔ ٹیس اٹھے گی۔ فوراً نکلے گا۔
دوسرا جواب، جہالت: تعلیمی نہیں، سیاسی جہلا کو نہ اپنے لیڈر میں کوئی عیب نظر آتا ہے نہ دوسرے لیڈر میں کوئی اچھائی۔ وہ یہ تفریق کرنے سے قاصر ہیں کہ انکا لیڈر واقعی مصیبت میں ہے یا ان کے جذبات سے کھیلا جا رہا ہے۔ یہ جہل معاشرے کے ہر طبقے، اَن پڑھ ہوں یا پڑھے ہوئے، کارے ہوں یا بے کارے، چاکر ہوں یا ٹھاکر، جج ہوں کہ جنرل، اے سی ہوں یا ڈی سی ، سب میں یکساں ہے۔ اس میں بڑا حصہ ان کا ہے جنہوں نے عمران سیریز کے علاوہ کوئی کتاب نہیں پڑھی اور نہ کبھی کسی خبر کی تصدیق کرنے کی کوشش۔
حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں سارا فساد اس لیے ہے کیونکہ معیشت مضبوط نہیں۔ معیشت مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے فیصلہ سازوں کو تجربے کرنے کا گراؤنڈ ملتا ہے۔ ہم ترقی مخالف رویہ رکھتے ہیں۔ دنیا کو پاگل خود کو افلاطون سمجھتے ہیں۔
2011 میں ہم ایکسپورٹ میں 31 ارب ڈالر پر تھے، 2021 ہزار اکیس میں 32 ارب ڈالر پر جبکہ بھارت 600 ارب ڈالر پر۔ سنہ 1996 میں ہمارے برابر 10 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کرنے والا ویتنام آج 350 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ پر بیٹھا ہے اور ہم تیرا جج میرا جج ، تیرا چیف میرا چیف، تیرا چور میرا چور کھیل رہے ہیں۔
اس ملک کو اگر ترقی چاہیے تو اسےکاروبار چاہیے، کاروبار آئے گا سیاسی استحکام سے۔ سیاسی استحکام آئے گا پارلیمان سے۔ جب لیڈر عوام کو اشتعال دلا کر نہیں بلکہ ایوان میں مباحثہ کر کے اپنا مقدمہ پیش کرے۔ جب ساری جماعتیں، ایک ساتھ بیٹھ کر معیشت کا ایک چارٹر بنا کر اس پہ دستخط کریں۔
اس ملک کو بدلے کی آگ میں جھلسنے والا مسیحا نہیں بلکہ معاشی اور تجارتی وژن رکھنے والی پالیسی چاہیے ۔پالیسی ایسی جس کو کسی نازک موڑ سے کوئی فرق نہ پڑے۔ دنیامیں مثالیں بہت ہیں، مگر ہم آنکھوں پر کھوپے چڑھائے، گول چکر میں گھوم رہے ہیں۔