کچھ لوگ جن میں بائیں بازو کے دانش ور بھی شامل ہیں سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہیں اس لیے اُن کی طرف نرم گوشہ رکھنا چاہیے ۔
آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ کیا واقعی عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہیں؟
اس پر بات کرنے سے پہلے کچھ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں وضاحت ضروری ہے کہ اس اصطلاح کو کیسے سمجھا جائے۔ زیادہ تر لوگ اس سے مراد فوج لیتے ہیں اور چوں کہ فوج کا براہِ راست نام لینے میں کچھ قباحت ہے اس لیے فوج کے بجائے مقتدرہ، ڈیپ اسٹیٹ یعنی گہری ریاست اور طاقت کے مراکز یا مقتدر حلقوں کی اصطلاحیں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔
کچھ اور لوگ مقتدرہ میں فوج کے جنرلوں کے علاوہ پوری سول اور فوجی افسر شاہی کو شامل کرتے ہیں۔ سول افسر شاہی میں اونچے گریڈ والے افسر اور عدلیہ کے جج وغیرہ بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔
راقم کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ یا مقتدرہ میں وہ تمام لوگ شامل ہیں یا شامل کیے جا سکتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح اقتدار سے چمٹے رہتے ہیں اور بہت کم ہی اقتدار سے دور رہتے ہیں۔ اگر کچھ وقت باہر رہیں بھی تو جلد سے جلد واپس آجاتے ہیں۔
اس طرح اسٹبیلشمنٹ کی اصطلاح میں اُن تمام لوگوں کو شامل سمجھنا چاہیے جو بہت طویل عرصے تک اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہوں اور اس دوران میں شاید ہی کبھی کسی کو جواب دہ رہے ہوں۔
اس تعریف کے مطابق سول اور فوجی افسر شاہی تو بہرحال مقتدرہ کا حصہ ہمیشہ رہتی ہے اور اس میں صرف اعلیٰ فوجی افسر یا اونچے گریڈ کے سول افسر ہی نہیں بلکہ نچلے عہدوں پر فائز سول اور فوجی افسر بھی شامل کیے جا سکتے ہیں جو اپنی پکی سرکاری ملازمت کی بدولت سرکاری خزانے سے بھر پور فائدے اٹھاتے ہیں، لیکن سوائے اپنے اعلیٰ افسروں کے کس کو جواب دہ نہیں ہوتے۔
ان کے علاوہ وہ جاگیر دار، سجاده نشین، علما و مشائخ، سیاست دان اور کاروباری خواتین و حضرات بھی مقتدرہ کا حصہ سمجھے جا سکتے ہیں جو ہر دور میں اقتدار یا مقتدرہ کے قریب ترین ہوتے ہیں اور اشارے ملنے پر جلد اپنی وفاداریاں بدل لیتے ہیں۔ ان میں شاہ محمود قریشی سے لے کر لمبی داڑھیوں اور اونچے شملوں والے بہت سے نام نہاد رہنما بھی شامل ہیں اور اعظم سواتی، بابر اعوان، فواد چودھری اور گجرات کے چودھری برادران جیسے سب شامل ہیں اور جنرل ایوب خان کا خاندان بھی۔
اس طرح وہ کاروباری حضرات جو اربوں روپے کما کر دھیلوں کا ٹیکس دیتے ہیں۔ ہر بجٹ میں زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ریئل اسٹیٹ کے لیے ہزاروں بلکہ لاکھوں مربع ایکٹر زمین اونے پونے حاصل کرتے ہیں اور ہر دور میں جمہوریت دشمن قوتوں کا ساتھ دیتے ہیں۔بہرحال یہ اسٹیبلشمنٹ یا مقتدرہ کا حصہ سمجھے جانے چاہییں۔
اس طرح وہ ٹیکنوکریٹ جو آمریت کا انتظار کرتے ہیں اور عہدوں کے لیے مقتدرہ کے اشاروں پر چلتے ہیں پھر اخباری کالموں اور ٹی وی کے ذریعے اپنے خیالات سے جمہوریت کے خلاف زہر اگلتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہیں۔
اب کیا اس کلیے پر سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما پورے نہیں اترتے۔ راقم کے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر پیپلز پارٹی اور نون لیگ ضرور مختلف اوقات میں مقتدرہ سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوئے لیکن انہیں اسٹیبلشمنٹ کا حصہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ اس لیے کہ انہوں دیگر کے برعکس طویل عرصہ اقتدار سے باہر گزارا ہے اور ملک میں درحقیقت مقتدرہ کو بار بار للكارا ہے جس کا خمیازہ ان جماعتوں کے رہنماؤں اور ان کے خاندانوں کو بری طرح بھگتنا پڑا ہے اور طویل قید و بند برداشت کی ہے۔
اب اس کلیے کے مطابق کیا عمران خان اسٹیبلشمنٹ مخالف ہیں؟ غالباً نہیں۔ سب سے پہلے تو جب وہ 90 کے عشرے کے اواخر میں سیاست میں وارد ہوئے تو انہوں نے اخبارات میں مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، جن میں وہ متواتر دقیانوسی اور پسماندہ خیالات کا پرچار کرتے رہے۔ مثلاً اُس وقت سے طالبان کی کھلم کھلا حمایت کرتے رہے ہیں۔ قبائلی روایات کے تحفظ اور ترویج کے لیے لکھتے رہے۔ خواتین کے لیے چادر اور چار دیواری کا جنرل ضیا الحق والا فارمولہ پروان چڑھاتے رہے ۔
پھر خود مقتدرہ کے کاندھوں پر اقتدار میں آئے اور جمہوریت دشمن قوتوں کے شانہ به شانہ تمام غیر آئینی اور غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے ۔ جنرل شجاع پاشا اور جنرل ظہیر الاسلام سے لے کر جنرل فیض حمید اور جنرل باجوہ سب کا دم بھرتے رہے۔
جب سیاسی جماعت بنائی تو اس میں تمام بدنام زمانہ اور بدعنوان سیاست دانوں کو شامل کیا جو خود مختلف جماعتوں سے دھتکارے گئے تھے لیکن مقتدرہ کے بَل پر انتخاب جیت سکتے تھے ۔ اقتدار میں آنے کے بعد پارلیمان کی بے حرمتی کرتے رہے شاذو نادر ہی ایوان میں آتے اور ہیلی کاپٹروں میں سفر کرتے رہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ جب مقتدرہ ان سے ناراض ہوئی تو پھر اسی اسٹیبلشمنٹ کے ترلے کرتے رہے کہ کسی طرح انہیں اقتدار میں واپس لے آئے۔ انہوں نے کبھی اپنے دقیانوسی اور پسماندہ خیالات کو نہیں چھپایا اس لیے معاشرے کے سب سے پسماندہ ذہن اور طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے نوجوان جو خود سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری رہے ہیں، انہوں نے عمران خان کو سر پر چڑھایا۔
اب کیا آرمی چیف کے خلاف بیان دینے سے عمران خان اینٹی اسٹیبلشمنٹ بن گئے ہیں؟
ایسا نہیں ہے، انہوں نے کبھی بھارت سے دوستی کی بات نہیں کی جو نواز شریف متواتر کرتے رہے ہیں۔ انہوں نےکبھی فوج کی کاروباری سرگرمیوں پر سوال نہیں اٹھایا جو پیپلز پارٹی بار بار اٹھا چکی ہے۔ عمران نے کبھی سماجی اور سیاسی شعور کی بات نہیں کی بلکہ لوگوں کو جذباتیت میں دھکیلتے رہے اس طرح ہر وہ کام اور ہر وہ بات کرتے رہے جو معاشرے کی مقتدرہ قوتوں کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ہو۔
ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ نسبتاً بہتر ہیں کہ وہ تاریخ سے سبق سیکھ رہی ہیں لیکن عمران خان کچھ بھی سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم نظر آتے ہیں۔