آپریشن راہِ حق و راہِ راست: کیا کھویا، کیا پایا؟

ہفتہ 20 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’جیسے ہی سوات میں فوج داخل ہوئی، تو ایک بڑے فوجی قافلے پر تبلیغی مرکز تختہ بند کے قریب ندی پر بنے پُل پر خود کُش دھماکا ہوا۔ دھماکے کی اطلاع ملتے ہی ہماری دوڑیں لگ گئیں۔ جس وقت مَیں وہاں پہنچا، تو میری آنکھوں کے سامنے ایک اندوہناک منظر تھا۔ انسانی اعضا سڑک کنارے کھیتوں اور درختوں میں دور دور تک بکھرے اور لٹکے ہوئے دکھائی دیے۔‘

یہ کہنا ہے سوات میں شورش کے دوران فعال ترین صحافیوں میں سے ایک فیاض ظفر کا۔ ’جاں بحق ہونے والوں میں فوجی جوانوں کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکار بھی تھے۔ دھماکا اتنا شدید تھا کہ پُل میں ایک بڑا سوراخ بن گیا تھا۔ اس کے بعد مذکورہ علاقے میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ اس کے بعد سے اہلِ سوات کو چین کی گھڑی نصیب نہیں ہوئی۔‘

آپریشن راہِ راست کے لیے کتنی فوج آئی تھی؟

سوات کے سینئر صحافی فیاض ظفر کہتے ہیں کہ جس وقت وفاقی حکومت کے اعلان پر سوات میں فوج کی طرف سے آپریشن کا آغاز ہوا، تو اول اول 2ڈویژن فوج سوات داخل ہوئی۔فوج کے بیشتر قافلوں نے مالاکنڈ پاس کے ذریعے مگر کچھ نے ضلع شانگلہ کی طرف سے بھی پیش قدمی کی۔

’قمبر اوڈیگرام سے گزرتے ہوئے اولین کام یہ کیا گیا کہ طالبان کے خالی کیے گئے مورچے قبضے میں لیے گئے۔ ایف سی کیمپ (کانجو سوات) میں ڈیرہ ڈالنے والے بریگیڈ نے کیمپ ہی سے گاؤں امام ڈھیرئی، ملا فضل اللہ اور اس کے حامیوں کا گڑھ، پر مارٹر گولے برسائے۔‘

عینی شاہدین کے مطابق عجیب کام یہ تھا کہ ہر داغا جانے والا مارٹر گولا امام ڈھیرئی مرکزکی جگہ خالی کھیتوں یا کھلے میدان میں گرتا یا پھر دریائے سوات میں۔ فیاض ظفر بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مذکورہ گولوں میں سے ایک بھی طالبان کے امام ڈھیرئی مرکز پر نہیں گرا تھا۔

سب سے پہلے امام ڈھیرئی گاؤں کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟

امام ڈھیرئی دراصل تحریکِ طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کا آبائی گاؤں ہے۔ اسی گاؤں میں ملا فضل اللہ نے اپنے بدنام زمانہ ایف ایم ریڈیو کا آغاز کیا جس کے ذریعے سادہ لوح عوام کو قرآنِ کریم کی خودساختہ تشریح کے ذریعے اپنے دامِ فریب میں پھنسایا۔ ڈاکٹر سلطانِ روم کے تحقیقی مقالے ’سوات: ایک تنقیدی جائزہ‘ میں مذکورہ ایف ایم ریڈیو کے آغاز کی تاریخ اکتوبر یا نومبر 2004 بتائی گئی ہے۔

اول اول ریڈیو نشریات کے ذریعے ملا فضل اللہ قرآنِ کریم کا ترجمہ کیا کرتا تھا اور لوگوں کو صالح اور نیک بننے کا درس دیا کرتا تھا۔ بتدریج اُس کا لہجہ درشت ہوتا گیا اور آخر میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ جسے’راہِ راست‘ پر لانا مقصود ہوتا، اُس کا نام ریڈیو کے ذریعے درس ختم ہونے کے بعد لیا جاتا۔ طالبان کے کارندوں کو اس شخص کا بندوبست کرنے کا کہا جاتا کہ وہ ہمارے اور اسلام کے خلاف ہے۔

امام ڈھیرئی کے ساتھ ملحقہ گاؤں کے ایک رہائشی گل نمیر (فرضی نام) کہتے ہیں کہ اگر امام ڈھیرئی میں دوچیزیں نہ ہوتیں، تو اس پر کبھی توپوں کا رخ نہ کیا جاتا ۔ ’دو چیزیں یہاں کے باسیوں کے لیے عذاب کا سامان بنیں۔ پہلی چیز، امام ڈھیرئی مرکز، جو ایک طرح سے طالبان کا گڑھ تھا۔ دوسری چیز، ایف ایم ریڈیو، جس کی مدد سے فضل اللہ ریاست اور اس کے اداروں کو چیلنج کرتا تھا۔‘‘

ایف ایم ریڈیو کا کیا کردار تھا؟

مینگورہ کے نواحی علاقے ملوک آباد کے انور علی (فرضی نام) بھی اپنے محلے کی ایک بیٹھک میں رات کو دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر ملا فضل اللہ کا دیا جانے والا درس سنتے تھے۔ ’ویسے بھی فوج کی آمد سے قبل دوستوں پر اسلامی رنگ غالب آگیا تھا اور باقی ماندہ دوست، طالبان کی دہشت سے ’اسلامی‘ بننے کا ڈھونگ رچا رہے تھے۔ اُن دنوں طالبان گلی کوچوں میں دندناتے پھرتے تھے۔ اگر پائنچے ٹخنوں سے نیچے ہوتے، تو بھی نوجوانوں کو ٹوکا جاتا۔‘

انور علی بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں نمازِ باجماعت کے وقت مسجد کے آس پاس کھڑے جوانوں اور نوجوانوں کو بطورِ خاص ٹوکا جاتا۔ اُن دنوں سوشل میڈیا عام نہ تھا، اس لیے یار دوست اپنا کام ختم کرکے بیٹھک میں آکر تاش یا لڈو کھیل لیتے۔ ساتھ ساتھ درس بھی سنتے۔ بیٹھک میں ایک نشہ کرنے والا بھی بیٹھتا تھا۔ وہ طالبان سے سخت ڈرتا تھا۔ اُس کی حسِ ظرافت کمال کی تھی، اس لیے کبھی کبھار اس کے چٹکلے سن کر محفل زعفران زار ہوجاتی۔

ایک دن ملا فضل اللہ درس کے دوران ایک آیت کی تشریح کرتے وقت اس انداز سے بہک گیا: ’یَآ اَیُّـھَا الْکَافِرُوْنَ…… اے پیپل پارٹی والو!، اے نیشنل پارٹی والو!‘ بیٹھک میں پہلے سے ایک کونے میں دبکے بیٹھا، نیم وا آنکھوں سے جواباً کہنے لگا: ’لو جی، یہ کیسی تشریح ہے؟ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں پیپل پارٹی اور نیشنل پارٹی کا وجود کہاں تھا؟ ہم دوستوں کو اُس بظاہر نشئی دکھنے والے محلے دار نے پہلی بار سوچنے پر مجبور کیا۔‘

اسی ایف ایم ریڈیو کی مدد سے ملا فضل اللہ کا اثر گھروں میں بیٹھی خواتین پر سب سے زیادہ ہوا۔ کوزہ بانڈئی کے شریف اللہ اپنی یاد تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک روز بھابی نے چھٹی کے روز گھر میں بیٹھے میرے بڑے بھائی کو طعنہ دیا کہ تم امام ڈھیرئی مرکز کی تعمیر میں اگر پیسے نہیں دے سکتے، تو کم از کم دہاڑی تو کرسکتے ہو۔ ’وہاں پر اللہ کا گھر تعمیر ہو رہا ہے۔ جاؤ، اس میں اپنا حصہ ڈالو۔‘

اس طرح یہ خبریں تو اخبارات کی زینت بن چکی ہیں کہ کئی سادہ لوح خواتین نے ملا فضل اللہ کے ایف ایم پر دیے جانے والے معمول کے درس سے متاثر ہوکر اپنا زیور امام ڈھیرئی مرکز کی تعمیر میں فی سبیل اللہ دیا۔ نیز نقد رقوم دینے کی بھی خبریں شائع ہوچکی ہیں۔

آپریشن کو موثر بنانے کی خاطر فوج کو کس فارمولے کے تحت تقسیم کیا گیا؟

سوات بھیجی گئی دو ڈویژن فوج میں سے ایک ڈویژن میجر جنرل کی سربراہی میں مالاکنڈ میں قیام پذیر ہوئی جب کہ دوسرا ڈویژن ایک اور میجر جنرل کی سربراہی میں ضلع سوات میں خوازہ خیلہ کے مقام پر قیام پذیر ہوا۔

فیاض ظفر کے مطابق ایک طے شدہ فارمولے کے تحت ایک بریگیڈ فوج کو سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں رہائش اختیار کرنے کا حکم دیا گیا۔ دوسرے بریگیڈ کو خوازہ خیلہ میں، تیسرے کو مٹہ، چوتھے کو کبل، پانچویں کو بریکوٹ اور چھٹے کو بحرین میں قیام پذیر ہونے کا حکم ملا۔

مذکورہ تمام جگہوں کے لیے مختص شدہ بریگیڈیئرز اپنی جگہوں پر رہایش اختیار کرگئے، ماسوائے بحرین کے جس کے بریگیڈیئر نے مدین میں رہنے کو ترجیح دی۔

آپریشن راہِ حق کا آغاز

اپنے تحقیقی مقالے ’سوات: ایک تنقیدی جائزہ‘ میں رقم کرتے ہیں کہ سیکیورٹی فورسز نے اکتوبر 2007ء میں سوات میں مسلح کارروائی شروع کی جسے آپریشن راہِ حق سے موسوم کیا گیا اور جس نے ایک ماہ بعد ایک قسم کی بھرپور کارروائی کی شکل اختیار کرلی۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مارٹرز، توپ خانے اور گن شپ ہیلی کاپٹرز کے استعمال سے نہ صرف خوف و ہراس پھیلا بلکہ جانی اور مالی نقصانات سمیت کثیر تعداد میں لوگ بے گھر ہونے پر بھی مجبور ہوئے۔

ڈاکٹر سلطانِ روم وضاحت کرتے ہیں کہ طالبان کے خلاف کارروائی یا آپریشن کا آغاز اکتوبر میں ہوا۔ ابتدا میں نیم فوجی دستے استعمال کیے گئے اور نومبر میں باقاعدہ فوج نے کارروائی شروع کی۔ اس لیے فوجی آپریشن کے آغاز کا مہینہ نومبر ہی بتایا جاتا ہے۔

اس دوران پاک فوج نے اپنی کامیابی کا دعوٰی کیا۔ ماہِ فروری میں 2008ء کے انتخابات منعقد ہوئے۔ اُس دور کے اخباری ریکارڈ کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے قومی اسمبلی کی مختص شدہ سات نشستیں اپنے نام کرکے کلین سوئیپ کیا اور صوبائی حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد ملا فضل اللہ سے مذاکرات کا آغاز کیا۔

ڈاکٹر سلطانِ روم کے مطابق اپریل اور مئی 2008ء میں معاہدوں کے بعد صوفی محمد کو جیل سے رہا کیا گیا۔ واضح رہے کہ صوفی محمد تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی کے سربراہ اور ملا فضل اللہ کے سسر تھے۔

صوبائی حکومت اور ملا فضل اللہ کے مابین جو معاہدے ہوئے ان میں سب سے بڑا نکتہ اسلامی قوانین کے نفاذ کا وعدہ تھا۔ مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور ایک بار پھر حالات کشیدہ ہوگئے۔ اسی اثنا میں آپریشن راہِ حق کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ اس پھر دوسرے کے بعد تیسرا مرحلہ بھی شروع ہوا۔

سوات کی تاریخ کا طویل ترین کرفیو

آپریشن راہِ حق کے دوسرے مرحلے میں اہلِ سوات اپنی تاریخ کے طویل ترین کرفیو کے عذاب سے بھی گزرے۔ ڈاکٹر سلطانِ روم اس حوالے سے رقم طراز ہیں کہ ایک طویل اور مسلسل کرفیو کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی، جو رمضان کے مہینے میں بھی مسلسل 22 روز تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہا۔

’۔۔۔اس لیے کہ یہ کبھی کسی وقفے اور کبھی بغیر کسی وقفے کے 11 ماہ تک جاری رہا۔ اس دوران بجلی و ٹیلی فون کے نظام میں تعطل نے عوام کو مزید مصائب و مشکلات سے دوچار کیا۔‘

آپریشن راہِ حق کے تین مرحلوں کے بعد آپریشن راہِ راست کا آغاز

اہلِ سوات چوہے اور بلی کے اس کھیل میں آپریشن راہِ حق کے پہلے، دوسرے اور تیسرے مرحلے میں لگے زخموں کو ابھی چاٹ ہی رہے تھے کہ 2009ء میں آپریشن راہِ راست کا اعلان کردیا گیا۔

ڈاکٹر سلطانِ روم کے مطابق، 30 اپریل 2009ء کو جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ملاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندی کو ہر صورت میں ختم کرنے میں حکومت کی مدد کریں گے۔

’اگر چہ سوات میں نئی فوجی کارروائی پہلے ہی 5 مئی کو شروع ہوچکی تھی لیکن وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے 7 مئی 2009ء کو قوم سے اپنے خطاب میں اس تازہ کارروائی کا جواز پیش کرتے ہوئے اس کا باقاعدہ اعلان کیا۔ سوات میں اس نئی فوجی کارروائی کو آپریشن راہِ راست کا نام دیا گیا۔‘

پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی نقلِ مکانی

جب طالبان کے خاتمے کے نام پر سیکورٹی فورسز کی جانب سے جیٹ طیاروں، گن شپ ہیلی کاپٹروں اور توپ خانوں کے منہ کھول دیے گئے، تو اہلِ سوات کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی۔

پشتو کی کہاوت ’د وچو سرہ لامدہ سوزی‘، یعنی سوکھی لکڑی کے ساتھ ہری بھی جل جاتی ہے، کے مصداق فوجی کارروائی بلا تفریق جاری تھی۔ اپنی جان بچانے کی غرض سے اہلِ سوات اپنے بھرے پرے گھر چھوڑ کر نامعلوم منزل کی طرف نقلِ مکانی کرنے لگے، جسے پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی نقلِ مکانی کہا جاتا ہے۔

اس حوالے سے سوات کی ایک مقامی نیوز ویب سائٹ ’باخبر سوات ڈاٹ کام‘ کی 6 مئی 2021ء کی ایک رپورٹ ملاحظہ ہو: ’سوات میں شورش کے دوران میں ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی نقلِ مکانی کو 12سال مکمل ہوگئے۔ سوات میں حالات انتہائی خراب ہونے کے بعد 5 مئی 2009ء کو فورسز نے سوات کے لوگوں کو سوات چھوڑنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد 20 لاکھ افراد گھر بار چھوڑ کر بے یار و مدد گار روانہ ہوئے تھے۔

’3 ماہ تک ملک کے مختلف حصوں، کیمپوں میں مقیم رہے۔ان نقلِ مکانی کرنے والے افراد کے لیے خیبر پختونخوا میں حیات آباد پشاور کے علاوہ تمام علاقوں کے لوگوں نے اپنے گھروں اور دلوں کے دروازے کھول دیے تھے۔ سوات کے لوگوں کو اپنے گھروں سے دور ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا۔‘

کیا کھویا، کیا پایا؟

پشتو کی ایک مشہور ضرب المثل ہے: ’’ دبنگڑو بار‘‘ یعنی چوڑیوں کا گٹھا۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ ایک معمر خاتون سڑک کنارے بیٹھ گئی۔ اس کے پاس ایک گٹھا سا تھاجس کے اندر چوڑیاں باندھ کر رکھی ہوئی تھیں۔ دو پولیس اہلکاروں کے ہمراہ ایک تھانیدار وہاں ہر کسی سے سڑک کنارے کھڑے ہونے یا بیٹھنے کی بابت پوچھ گچھ رہا تھا۔

جیسے ہی وہ خاتون کے قریب آیا، تو گٹھے کو لات مارتے ہوئے کہا: ’’اُو بڑھیا! کیا ہے گٹھے میں؟‘‘ خاتون نے جواباً ہاتھ جوڑ کر کہا: ’بیٹا! اگر دوسری لات ماری، تو گٹھے میں کچھ بھی نہیں ہوگا۔‘

سوات بھی’د بنگڑو بار‘ ہو کر رہ گیا ہے۔ دہشت گردانہ واقعات اور بھانت بھانت کی فوجی کارروائیوں کے بعد حالت یہ ہے کہ یہاں کے یتیم خانوں ’’خپل کور فاؤنڈیشن‘‘، ’’پرورش‘‘ اور سرکاری یتیم خانہ ’’زمونگ کور‘‘ میں بیشتر تعداد اُن یتیم بچوں اور بچیوں کی ہے جن کے والدین شورشِ سوات کی نذر ہوگئے تھے۔

پراسرار ہلاکتیں

کئی کہانیاں ایسی ہیں جو خون کے آنسو رُلانے پر مجبور کرتی ہیں۔ الم کی ایسی ہی ایک داستان بلوگرام سوات کی رہائشی فرزانہ کی بھی ہے۔ ’یہ 2008ء کی عیدالاضحی سے ایک رات پہلے کی بات ہے جب میرے خاوند اپنی بیکری میں مٹھائی تیار کرنے میں مصروف تھے۔ اس دوران 20 سے زائد نقاب پوش دہشت گردوں نے زبردستی ہمارے گھر کی تلاشی لی اور جاتے وقت میرے خاوند، دیور اور سسر کو بھی ساتھ لے گئے۔ تمام رات پریشانی کے عالم میں جاگتے ہوئے گزاری۔ صبح اطلاع ملی کہ گھر کے تینوں مردحضرات کو ذبح کرکے کھیتوں میں پھینک دیا گیا ہے۔ ظلم کی انتہا دیکھیے کہ انہیں مارنے کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی۔‘

یوں فرزانہ بیوہ ہوگئیں اور اس کے تین بچے یتیم۔

فوجی کارروائیوں کی اثر پذیری

مذکورہ فوجی کارروائیوں کے حوالے سے سوات کے سینئر صحافی فیاض ظفر کہتے ہیں کہ جہاں تک آپریشنوں کا سوال ہے، تو زمینی حقائق یہی ہیں کہ ان کا کچھ خاص فائدہ دیکھنے کو نہیں ملا۔

’مَیں وہ شخص ہوں جو شورش میں باقاعدہ طور پر فیلڈ میں بھی رہا ہے، خود کش دھماکوں کی کوریج بھی کی ہے، مختلف لوگوں کو انٹرویو بھی کیا ہے، میرے نزدیک فوجی آپریشنوں کا اہلِ سوات کو کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا ہے۔‘

دوسری طرف ’سوات اولسی پاسون‘ یعنی سوات عوامی تحریک کے رہنما آفتاب خان فوجی آپریشنوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اس دوران جو کچھ ان کی نظروں کے سامنے ہوا ہے، وہ خدا کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے۔

’سوات اولسی پاسون کا واضح موقف ہے کہ جو کچھ پہلے ہوچکا ہے، وہ تو ویسے بھی ہوچکا ہے مگر آیندہ ہم کسی بھی فوجی آپریشن کے حق میں نہیں ہوں گے۔ اگر خدا نخواستہ سوات کی سرزمین پر دہشت گرد دوبارہ منظم ہوتے بھی ہیں، تو اُن کے خلاف صرف اور صرف سوات کی پولیس آپریشن کرے گی۔‘

آفتاب خان کے مطابق پولیس اہل کار پشتون روایات کو سمجھتے ہیں۔ وہ عوام کے چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال نہیں کرتے۔ ’بیشتر اہل کار کو ہم جانتے ہیں یا وہ ہمیں جانتے ہیں۔ دیگر صوبوں یا علاقوں سے آئے ہوئے لوگ جنہیں ہماری روایات کا کچھ پتا نہیں ہوتا، وہ معاملہ سلجھانے کی بجائے مزید الجھا دیتے ہیں۔ ‘

حالات و واقعات کی ستم ظریفی

ڈاکٹر سلطانِ روم اس حوالے سے اپنی کتاب ’سوات تاریخ کے دوراہے پر‘ کے صفحہ 58 اور 59 پر لکھتے ہیں: اگر چہ فوجی دستوں کو جولائی 2007ء میں سوات اس غرض سے بھیجا گیا کہ وہ فضل اللہ کی سرگرمیوں اور بڑھتی ہوئی طاقت کو قابو اور حکومتی عمل داری کو بحال کرسکیں لیکن فوج کا کردار زیادہ عملی نہیں رہا۔

’یہ فوج کی موجودگی ہی میں دیکھنے کو ملا کہ فضل اللہ پہلی دفعہ ذاتی طور پر کیل کانٹے سے لیس اپنی تمام تر قوت اور طاقت کے ساتھ اپنے گاؤں سے باہر آیا اور نہ صرف اپنی قوت اور طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا بلکہ اپنے گاؤں اور مرکز سے کئی کلومیٹر دور کبل کے میدان میں 4 اکتوبر 2007ء کو عید الفطر کی نماز ادا کی۔‘

ڈاکٹر سلطانِ روم نے اس واقعہ میں چھپی ستم ظریفی کچھ یوں بیان کی ہے۔ ’۔۔۔کبل گالف کورس میں تعینات فوج نے فضل اللہ سے استدعا کی کہ وہ ان کے پیچھے نمازِ عید ادا کرنا چاہتی ہے۔ اجاز ت ملنے پر فوج کے جوانوں نے اُس کی امامت میں نمازِ عید ادا کی۔‘

دلچسپ امر یہ ہے کہ اخبارات میں اس کو صحیح طور پر رپورٹ نہیں کیا گیا اور اس کے بعد جب فوجی آپریشن شروع ہوا، تو فوج نے نومبر 2007ء سے فروری 2009ء تک آپریشن اس انداز میں کیا کہ طالبان نہیں بلکہ عوام کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp