اسرائیل کی طرف سے غزہ کے 100 سے زائد فلسطینیوں کو رکفیت جیل میں زیر زمین رکھنے کا انکشاف ہوا ہے جہاں وہ نہ کبھی سورج کی روشنی دیکھ پاتے ہیں، نہ مناسب خوراک ملتی ہے اور نہ ہی اپنے اہل خانہ یا باہر کی دنیا کی خبریں حاصل کر سکتے ہیں۔
برطانوی اخبار گارڈین کی خصوصی رپورٹ کے مطابق رکفیت جیل کو 1980 کی دہائی میں انتہائی خطرناک مجرموں کے لیے بنایا گیا تھا لیکن بعد میں غیر انسانی ہونے کی وجہ سے بند کر دیا گیا۔ 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کے بعد، اسرائیل کے سیکورٹی وزیر ایتامار بن-گویر نے اسے دوبارہ فعال کر دیا۔ جیل کے تمام حصے زیر زمین ہیں، جس کی وجہ سے قیدیوں کو قدرتی روشنی نہیں ملتی۔
یہ بھی پڑھیے: آئرش فٹبال ایسوسی ایشن نے اسرائیل کی معطلی کی قرارداد منظور کر لی
وکلا کے مطابق قیدیوں کو چھوٹے سیلز، محدود ورزش کی جگہ اور کمزور طبی سہولیات میں رکھا جاتا ہے۔ انہیں روزانہ تشدد، کتوں کے حملے، پابندیاں اور قلیل خوراک دی جاتی ہے۔ قیدی دن میں صرف چند منٹ باہر نکل سکتے ہیں، اور کئی قیدیوں کو 9 ماہ سے سورج کی روشنی نہیں دیکھنے دی گئی۔
اسرائیل کے اعلیٰ عدالت نے حال ہی میں فلسطینی قیدیوں کو مناسب خوراک فراہم نہ کرنے کو غیر قانونی قرار دیا۔ ماہرین کے مطابق زیر زمین قید کے نفسیاتی اثرات انتہائی خطرناک ہیں اور یہ بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس جیل میں کم از کم 2 شہری بھی قید ہیں، جن میں ایک نرس اور ایک نوجوان شامل ہیں، جو کئی ماہ سے بغیر مقدمہ یا الزام کے پکڑے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ میں پانی زہریلا، اسرائیلی حملوں نے ماحولیاتی بحران پیدا کر دیا
وکلا کے مطابق، دونوں افراد کو جنوری 2025 میں رکفیت منتقل کیا گیا اور انہیں معمولی تشدد اور دیگر اذیت دہ اقدامات کا سامنا کرنا پڑا، جو اسرائیلی جیلوں میں پائی جانے والی تشدد کی رپورٹس سے ملتے جلتے ہیں۔
اسرائیلی جیل سروس نے اس رپورٹ پر کوئی وضاحت نہیں دی، جبکہ وزارت انصاف نے سوالات فوج کی طرف منتقل کر دیے۔
قیدیوں کی حالت انسانی حقوق کے لیے سنگین خطرہ قرار دی جا رہی ہے اور عالمی برادری کی توجہ کی ضرورت ہے۔














