وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27ویں آئینی ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا، جس پر اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا، تاہم بعد ازاں اجلاس کل صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں شروع ہوا۔ اجلاس کا آغاز سینیٹر عرفان صدیقی (مرحوم) کے لیے دعائے مغفرت سے کیا گیا، جو پیر عمران علی شاہ نے کروائی۔
ستائیسوی آئینی ترمیم : قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس جاری https://t.co/1Sps4RyanE
— WE News (@WENewsPk) November 11, 2025
وزیر قانون کی 27ویں آئینی ترمیم میں آئینی عدالت کے قیام اور سپریم جوڈیشل کونسل کو اختیارات منتقل کرنے کی وضاحت
قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے وقت جمیعت علمائے اسلام (ف) کے اصرار پر آئینی عدالت کی جگہ آئینی بینچ شامل کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں عدالتوں نے پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلوں کو عدالتی فیصلے کے ذریعے ختم کیا، اور آئینی عدالت کے قیام کے لیے اتحادی جماعتوں سے رہنمائی لی گئی۔ میثاق جمہوریت میں بھی وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا تعین کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم پر ریٹائرڈ ججز کیا کہتے ہیں؟
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وفاقی آئینی عدالت میں چاروں صوبوں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی نمائندگی دی گئی ہے، اور سوموٹو نوٹس نے جس طرح جمہوری پارلیمانی نظام کو سبوتاژ کیا، وہ سب کے سامنے ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں آرٹیکل 200 کے تحت ججز کا تبادلہ صدر مملکت اور وزیر اعظم کی ایڈوائس پر ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں کیا جا سکتا تھا، مگر اس کو چیلنج کیا گیا۔ اب ترمیم کے ذریعے یہ تمام اختیارات سپریم جوڈیشل کونسل کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔
مزید برآں، دیوانی، فوجداری، کارپوریٹ اور وراثت کے مقدمات سپریم کورٹ سنے گی، جبکہ آئینی مقدمات صرف آئینی عدالت ہی سن سکے گی۔
27ویں آئینی ترمیم جمہوریت کے لیے نقصان دہ، صدر کو غیر معینہ استثنیٰ دیا جا رہا ہے، گوہر خان
قومی اسمبلی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی نے 27ویں آئینی ترمیم پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیم حساس معاملہ ہے، عوام خوش ہوتے ہیں کہ ان کے حقوق کا تحفظ ہوگا اور عدلیہ مضبوط ہوگی، مگر آج بدقسمت دن ہے، آج وہ اپنی طاقت کے بل پہ بلڈوز کرنے جا رہے ہیں۔
بیرسٹر گوہر نے مزید کہا کہ یہ ترمیم جمہوریت کے لیے ایک سوگ کا دن ہے اور اسے منظور کرکے حکومت خود کو ایسے اختیارات دے رہی ہے جس سے سزا سے استثنیٰ حاصل ہوگا۔
مزید پڑھیں: سینیٹ اجلاس: 27ویں آئینی ترمیم پر ووٹنگ کے دوران اپوزیشن کا احتجاج، ’نامنظور نامنظور‘ کے نعرے
ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم ون کے بعد پی ڈی ایم ٹو کی حکومت اقتدار میں آتے ہی اپنے کیسز معاف کرواتی رہی، اور اب اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے آئین میں ترامیم کے ذریعے خود کو احتساب سے مستثنیٰ کروا رہے ہیں۔
بیرسٹر گوہر علی خان نے ترمیم کو ’باكو ترمیم‘ قرار دیا اور کہا کہ اس کے بعد جمہوریت صرف نام کی ہوگی۔ آپ کے خوف کو سلام، آپ کے ڈر کو سلام، وہ مرد آہن جیل میں ہے، باہر آئے گا تو حقیقت سامنے آئے گی۔
آرمی چیف کو فیلڈ مارشل کا اعزاز اور آئینی تحفظ دینے کا فیصلہ
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حکومت نے آرمی چیف کو فیلڈ مارشل کے اعزاز سے نوازا اور اس کے بعد انہیں آئینی تحفظ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ آرمی چیف کی تعیناتی آرمی ایکٹ کے تحت ہوتی ہے، جبکہ صدر مملکت کا عہدہ آئینی نوعیت کا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہیں استثنیٰ حاصل رہے گا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سینیٹ میں اس معاملے پر وسیع اور تفصیلی بحث ہوئی اور وہ چاہتے ہیں کہ اس موضوع پر قومی اسمبلی میں بھی کھل کر بحث ہونی چاہیے۔
انہوں نے اپوزیشن سے درخواست کی کہ وہ اسی تحمل اور توجہ کے ساتھ اپنی رائے دیں جس طرح انہوں نے سینیٹ میں ان کی بات سنی۔
اختیارات نچلی سطح تک منتقل کیے بغیر جمہوریت ممکن نہیں، خواجہ آصف
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کی ترمیم 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں شامل تھی لیکن بعد میں ڈراپ کردی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہیں ہوتے، جمہوریت مضبوط نہیں ہوسکتی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں طاقت پر قبضہ کرلیا گیا ہے۔ جب تک ہم بلدیاتی نظام کو مضبوط نہیں کریں گے، فیڈریشن مضبوط نہیں ہوگی۔
وزیر دفاع نے کہا ملٹری ڈکٹیٹرز نے لوکل گورنمنٹ سسٹم متعارف کروائے، ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا نظام دیا، ضیاالحق کے دور میں سسٹم چلتا رہا، مشرف دور میں بھی بلدیاتی ادارے فعال رہے، مگر 18ویں ترمیم میں واضح طور پر لکھے جانے کے باوجود بلدیاتی نظام پر عمل نہیں کیا۔
خواجہ آصف نے خود احتسابی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے اختیارات کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرنا چاہتے، بدقسمتی سے ہمارا ڈی این اے جمہوری نہیں ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ایم کیو ایم کی ترمیم کسی حکومت کے خلاف نہیں، بلکہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے حق میں تھی۔
مزید پڑھیں: سابق لا کلرکس کا چیف جسٹس کو خط، 27ویں آئینی ترمیم عدلیہ کی ’تباہی کا پیش خیمہ‘ قرار
بلدیاتی نظام سے متعلق امور 28ویں آئینی ترمیم میں زیر غور آئیں گے، مصطفیٰ کمال
قومی اسمبلی کے اجلاس میں مصطفیٰ کمال نے کہا کہ بلدیاتی نظام سے متعلق امور اگلی آئینی ترمیم میں زیر غور آئیں گے۔
انہوں نے وفاقی کابینہ اور دیگر پارٹیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی کابینہ کے تمام اراکین نے ان کی ترمیم کی حمایت کی اور مشترکہ کمیٹی میں بھی اس پر غور کیا گیا۔
مصطفیٰ کمال نے مزید کہا کہ کچھ پارٹیز کو ہماری ترمیم پر اعتراض تھا، لیکن ان شا اللہ 28ویں ترمیم میں بلدیاتی نظام کی تشریح بہت جلد سامنے آئے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ این ایف سی کے تحت فنڈز منتخب مقامی حکومتوں تک منتقل کیے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہ کیے گئے تو لوگ منفی راستہ اپنا سکتے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ بلدیاتی ادارے تو قائم کیے گئے ہیں، مگر ان کی فنڈنگ کا کوئی واضح طریقہ کار ابھی وضع نہیں کیا گیا۔
کیا کل کی اشتعال انگیزی آج کے خودکش حملے کی وجہ بنی؟ لطیف کھوسہ
قومی اسمبلی کے اجلاس میں سابق گورنر پنجاب اور رہنما پی ٹی آئی سردار لطیف کھوسہ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کچہری میں اس وقت لاشیں خون میں لت پت پڑی ہیں، کل اس ایوان میں کالے کوٹ والوں کے بارے میں پرتشدد گفتگو کی گئی۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا کل کی اس اشتعال انگیزی کی وجہ سے آج کچہری میں خودکش حملہ ہوا؟ سردار لطیف کھوسہ نے ایوان میں کہا کہ قائداعظم محمد علی جناح بھی کالے کوٹ والے تھے، وزیرِ موصوف نے کل اشتعال انگیز تقریر کی، کیا ان پر مقدمہ ہوگا؟
انہوں نے موجودہ حکومت کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ فارم 47 کی پیداوار حکومت عوام کی نمائندہ نہیں ہے، کیا یہ حکومت آئین میں ترمیم کا اختیار رکھتی ہے؟
مزید پڑھیں: اسلام آباد کچہری کے باہر زوردار دھماکا، 15 افراد زخمی، ہلاکتوں کا خدشہ
ایوان بالا یعنی سینیٹ سے منظوری کے بعد آج قومی اسمبلی میں 27ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کر دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اجلاس کا ایجنڈا جاری کر دیا ہے، جس کے مطابق یہ آئینی ترمیم ایوان زیریں میں زیرِ غور آئے گی۔
حکومت کے پاس قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت موجود ہے، اس لیے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے کسی مشکل کا سامنا متوقع نہیں ہے۔
پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دینے والا نااہل ہو جائے گا، بیرسٹر علی ظفر
بیرسٹر علی ظفر نے پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کوئی بھی شخص اپنی پارٹی کی پالیسی کے خلاف ووٹ دے گا تو وہ نااہل ہو جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ کل ہمارے سینیٹر نے ووٹ دیا، اسے پارٹی سے نکال دیا گیا، اور ان کی نااہلی کا خط سیکریٹریٹ اور چیئرمین کو بھجوانا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے پارلیمنٹ میں میڈیا سے کہا کہ پارلیمنٹ میں کوئی بھی شخص پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے گا تو وہ نااہل ہو جائے گا۔ @AmirSaeedAbbasi @KulAalam pic.twitter.com/h15VjOnmPL
— Media Talk (@mediatalk922) November 11, 2025
صحافی کے سوال پر کہ سینیٹر سیف اللہ ابڑو کا کہنا تھا کہ ان کی فیملی کو اٹھایا گیا اور ان کی پارٹی نے ساتھ نہیں دیا، اس پر علی ظفر نے کہا کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں کہ سکتا، یہ اب بہانے ہو سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: 27 ویں ترمیم کی حمایت کرنے والے سیف اللہ ابڑو کون ہیں؟
جو ترمیم پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کے لیے ہوگی، اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، محمود خان اچکزئی
تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم کو منظور کروا لیا جائے گا اور اپوزیشن اس کے خلاف زیادہ کچھ نہیں کر سکتی۔
تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم کو منظور کروا لیا جائے گا اور اپوزیشن اس کے خلاف زیادہ کچھ نہیں کر سکتی۔@AmirSaeedAbbasi @KhawajaMAsif @asifbashirch pic.twitter.com/hWYVXE5na8
— Media Talk (@mediatalk922) November 11, 2025
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ترمیم جو عوام کے فائدے اور پارلیمنٹ کی طاقت بڑھانے کے لیے ہو، اس کا ہم غیر مشروط ساتھ دیں گے، لیکن جو ترمیم اس پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کے لیے ہوگی، اس کا ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
محمود خان اچکزئی نے زور دیا کہ پارلیمنٹ کے اختیارات اور آئینی وقار کی حفاظت ہر حال میں ضروری ہے اور اس پر سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: سینیٹ اجلاس: 27ویں آئینی ترمیم پر ووٹنگ کے دوران اپوزیشن کا احتجاج، ’نامنظور نامنظور‘ کے نعرے
گزشتہ روز سینیٹ نے یہ ترمیم 64 ووٹوں کی حمایت سے منظور کی تھی۔ اجلاس قریباً آدھے گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا، اور حکومت نے ووٹوں کی تعداد پوری کرنے کے لیے صبح سے ہی جوڑ توڑ شروع کر رکھی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی کی علالت اور چیئرمین سینیٹ کے ووٹ نہ دینے کے باعث تمام نگاہیں اس بات پر مرکوز تھیں کہ کون سے 2 اپوزیشن اراکین اپنی جماعت کی پالیسی سے انحراف کریں گے۔
مزید پڑھیں:27ویں کے بعد 28ویں آئینی ترمیم بھی آ رہی ہے: رانا ثنااللہ نے تصدیق کردی
سینیٹر سیف اللہ ابڑو اور جے یو آئی کے سینیٹر احمد خان نے حکومت کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ دیگر اپوزیشن اراکین نے احتجاج کیا اور واک آؤٹ کیا۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے مرحلہ وار تمام شقوں کی منظوری لی اور اعلان کیا کہ ترمیم 64 ووٹوں سے منظور ہو گئی۔ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت نے اپوزیشن کو اتفاق رائے کے لیے مدعو کیا تھا، مگر تعاون نہ ہونے پر حکومتی اتحاد کا شکریہ ادا کیا۔
قومی اسمبلی میں آج کے اجلاس کے دوران پارلیمانی لیڈرز آئینی ترمیم پر اظہارِ خیال کریں گے، جس کے بعد بل کو حتمی منظوری کے لیے ووٹ کے لیے پیش کیا جائے گا۔ اجلاس میں حکومتی اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے شدید بحث متوقع ہے۔














